بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رہن کا حکم


سوال

اس زمانے کے  رواج کے مطابق رہن کا حکم ہے؟

جواب

’رہن‘‘  کا شرعی حکم یہ ہے کہ ضرورت  کی وجہ سے کسی قرض کے مقابلے میں ’’رہن‘‘ لینا اور دینا درست ہے، اور  رہن میں کوئی بھی قیمتی چیز رکھی جاسکتی ہے، اور رہن میں رکھی جانے والی چیز  کی حیثیت محض ضمانت کی ہوتی ہے، اور رہن میں رکھے جانے کے بعد بھی رہن (گروی) رکھی ہوئی چیز  اس کے اصل مالک کی ہی ملک رہتی ہے؛ البتہ قبضہ مرتہن (جس کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے) کا ہوتا ہے، لیکن اس کے لیے رہن رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہوتا، بلکہ یہ سود کے حکم میں ہوتا ہے۔

 نیز قرض کی مدّت پوری ہونے پر اولاً  قرض خواہ کو چاہیے کہ مالک سے قرض کا مطالبہ کرے، اگر قرض وصول نہ ہو تو مالک کی اجازت سے اس چیز کو فروخت کرکے اپنا قرض وصول کرلے تو  شرعاً اس کی اجازت ہوگی، اور اس کے بعد اگر کچھ رقم بچ جائے تو  زائد رقم اس کو واپس کرنا ضروری ہوگا۔

سائل کی مراد اگر "اس زمانے کے رواج" سے یہ ہے کہ جیسے بعض لوگ  اپنے پاس رہن (گروی) رکھواکر دوسروں کو قرض دیتے ہیں، اور پھر جب تک قرض وصول نہ ہوجائے گروی رکھی ہوئی چیز سے نفع اٹھاتے ہیں، تو اس کا حکم یہ ہے کہ مرتہن (قرض دینے والے) کے لیے رہن سے نفع اٹھانا جائز نہیں ہے، البتہ نفسِ رہن رکھوانا جائز ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200556

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں