میرے پاس ایک عدد پلاٹ ہے جس کی قیمت پچاس پچپن لاکھ روپے ہے، ابھی فی الحال میں اپنے والدین کے ساتھ رہتا ہوں اور یہ پلاٹ میں نے اپنے رہنے کے لیے لیا ہے، میں ابھی ریاض میں رہتا ہوں؛ کیوں کہ میری جاب یہاں پر ہے اور پاکستان میں ویسے میری رہائش نہیں ہے، لیکن یہ پلاٹ میں نے لیا ہے کہ اس میں گھر بنا لوں گا، جس بندے سے گھرکی کنسٹرکشن کرانی ہے اس کے ساتھ معاہدہ کیا ہے کہ دو سال میں اس کو انسٹالمنٹ دیتا رہوں گا، جس کی ایڈوانس پیمنٹ اس کو دے دیے سات لاکھ روپے اور ابھی اس کے اگلی پیمنٹ دینی ہے، جس میں تقریبًا بارہ پندرہ لاکھ روپے میں اس کا اور دوں گا، یہ پیسے ابھی میرے پاس ہی ہیں اور پتہ یہ کرنا تھا کہ اب اس معاملے میں زکات کس طرح ہوگی؟ کیا پلاٹ کی قیمت پر بھی زکات ہے؟ اور جو کنسٹرکشن کا اماؤنٹ اس کو دینا ہے اور اس پر کس طریقے سے زکات ادا ہوگی اور کیا زکات کے اکاؤنٹ میں جو ایڈوانس دے چکا ہوں اس کو بھی ایڈ کرنا ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ پلاٹ جو آپ نے اپنی رہائش کے لیے خریدا ہے اس کی مالیت پر زکات لازم نہیں ہے۔
اور اس پر تعمیرات کے لیے جو رقم آپ نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہے، اور ابھی تک ٹھیکیدار کو نہیں دی ہے تو جب آپ کے دیگر قابلِ زکات اموال پر زکات کا سال مکمل ہوگا اور یہ رقم موجود ہو تو اس رقم کو بھی زکات کے حساب میں شامل کرنا لازم ہوگا۔ اور جو رقم آپ ٹھیکیدار کوتعمیراتی معاہدہ کے تحت ادا کرچکے ہیں اور وہ واپس نہیں ملے گی ، اس کی زکات کی ادائیگی آپ پر لازم نہیں ہوگی۔
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 262):
"إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضا في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول، بخلاف ما إذا حال الحول وهو مستحق الصرف إليها، لكن يحتاج إلى الفرق بين هذا، وبين ما حال الحول عليه، وهو محتاج منه إلى أداء دين كفارة أو نذر أو حج، فإنه محتاج إليها أيضا لبراءة ذمته وكذا ما سيأتي في الحج من أنه لو كان له مال، ويخاف العزوبة يلزمه الحج به إذا خرج أهل بلده قبل أن يتزوج، وكذا لو كان يحتاجه لشراء دار أو عبد فليتأمل، والله أعلم."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108201606
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن