میں نے ایک پلاٹ خریدا تھا اور اب اس کی ویلیو بڑھ گئی ہے اور میں نے پلاٹ خریدتے وقت رہائش کی نیت سے لیا تھا اور میں اب اس کو بیچتا ہوں تو کیا اس کی قیمت پر زکوۃ ہو گی یا نہیں؟
واضح رہے کہ جو پلاٹ بیچنے کی نیت سے خریدا جائے اُس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے اور جو پلاٹ رہائش کی نیت سے خریدا جائے اُس پر زکاۃ واجب نہیں ہوتی، اگر کوئی پلاٹ رہائش کی نیت سے خریدا جائے پھر بعد میں اُس کو بیچنے کا ارادہ ہوجائے تو محض بیچنے کے ارادے سے اُس کی رقم پر زکاۃ واجب نہ ہو گی، بلکہ جب اُس کو بیچ دیا جائے پھر اُس کی رقم پر زکاۃ کے ضابطے کے مطابق زکاۃ واجب ہو گی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جو پلاٹ رہائش کی نیت سے خریدا اور اب اس کو بیچنا چاہ رہے ہیں تو محض بیچنے کے ارادے سے اس پر زکات واجب نہیں ہوگی، البتہ جب مذکورہ پلاٹ بک جائے اور دوسرے نصاب کا سال پورا ہوجائے تو اس سے حاصل ہونے والی رقم کی زکات ادا کرنا لازم ہوگا۔
در مختار میں ہے :
"(لايبقى للتجارة ما) أي عبد مثلا (اشتراه لها فنوى) بعد ذلك (خدمته ثم) ما نواه للخدمة (لايصير للتجارة) و إن نواه لها ما لم يبعه بجنس ما فيه الزكاة. و الفرق أن التجارة عمل فلاتتم بمجرد النية؛ بخلاف الأول فإنه ترك العمل فيتم بها.
(و ما اشتراه لها) أي للتجارة (كان لها) لمقارنة النية لعقد التجارة (لا ما ورثه و نواه لها) لعدم العقد إلا إذا تصرف فيه أي ناويًا فتجب الزكاة لاقتران النية بالعمل ."
( فتاوی شامی ،کتاب الزکات،ج:2،ص:272،سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509101150
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن