بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ریح نکلنے کا یقین نہ ہو تو وضو کا حکم


سوال

میں جب وضو کرنے جاتا ہوں تو وضو کے درمیان اکثر پا خانہ کے سوراخ کے حصے میں ٹھنڈک سی محسوس ہوتی ہے تو میں شروع سے وضو شروع کر دیتا ہوں،  گھنٹہ بھی لگ جاتا ہے کبھی کبھار لیکن وضو نہیں ہوتا،  اس سے نمازیں بھی چھوٹ جاتی ہیں،  کہیں سنا کہ جب تک قسم نہ اٹھا سکو کہ ریح خارج ہوئی ہے تو وضو نہیں ٹوٹتا،  کیا یہ بات صحیح ہے؟ اگر صحیح نہیں تو پھر جب ٹھنڈک محسوس ہو پاخانے کہ سوراخ میں تو یہ کیسے پتا چلے گا کہ ریح ساتھ میں خارج ہوئی  یا  نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں بظاہر   کسی نے مذکورہ بات یقین  سے کنایہ کے طور پر ذکر کی ہے ، اس لیے کہ حدیث شریف  میں ہے کہ" وضو نہیں ٹوٹتا مگر ریح کے نکلنے سے یا آواز سننے سے"؛ اور یہ دونوں باتیں   یقین  سے کنایہ  ہیں ، یعنی  جب تک ہوا خارج ہونے کا یقین نہ ہوجائے اس وقت تک وضو برقرار رہتا ہے، اور ہوا خارج ہونے کا یقین یا تو  آواز سے ہوتاہے یا بدبو سے،صرف  ٹھنڈک  محسوس ہونے اور  حرکت  کی وجہ سے شک و  شبہ کی بنا پر وضو نہیں ٹوٹتا، لہذا سائل کو چاہیے کہ   ایسے وساوس  میں نہ پڑے ،  بلکہ ان کی طرف دھیان ہی نہ دے،  اور ان کے ہوتے ہوئے بھی اپنے اعمال جاری رکھیں۔ 

مر قاۃ شرح مشکوۃ میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( إذا وجد أحدكم في بطنه شيئا، فأشكل عليه أخرج منه شيء أم لا. فلا يخرجن من المسجد حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا ) . رواه مسلم.

 (وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا وجد أحدكم في بطنه شيئا ) : أي كالقرقرة بأن تردد في بطنه ريح (فأشكل) : أي التبس (عليه أخرج) : بهمزة استفهام (منه شيء أم لا، فلا يخرجن من المسجد) : أي للتوضؤ لأن المتيقن لا يبطله الشك. قيل: يوهم أن حكم غير المسجد بخلاف المسجد، لكن أشير به إلى أن الأصل أن يصلي في المسجد لأنه مكانها، فعلى المؤمن ملازمة الجماعات للمسجد (حتى يسمع صوتا) : أي: صوت ريح يخرج منه ( أو يجد ريحا ) : أي: يجد رائحة ريح خرجت منه، وهذا مجاز عن تيقن الحدث لأنهما سبب العلم بذلك."

(كتاب الطهارة، باب ما يوجب الوضوء،الفصل الأول، ج:1، ص:306 ، رقم:310،  ط:دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

" عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌لا ‌وضوء ‌إلا من صوت أو ريح" رواه أحمد والترمذي

(عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (لا وضوء) : أي: واجب (إلا من صوت) : أي: إلا من سماع صوت (أو ريح) : أي: وجد أن رائحة ريح خرج منه. قال الطيبي: نفى جنس أسباب التوضؤ واستثنى منها الصوت والريح. والنواقض كثيرة، ولعل ذلك في صورة مخصوصة يعني بحسب السائل فالمراد نفي جنس الشك وإثبات اليقين أي: لا يتوضأ عن شك مع سبق ظن الطهارة إلا بيقين الصوت أو رائحة الريح (رواه أحمد، والترمذي) : وقال: حسن صحيح."

(كتاب الطهارة، باب ما يوجب الوضوء، الفصل الثاني، ج:1، ص:363، رقم:310،  ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"فإن الشك والاحتمال لايوجب الحكم بالنقض، إذ اليقين لايزول بالشك."

(كتاب الطهارة،باب سنن الوضوء، ج:1، ص:148، ط:سعيد)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"ومن أيقن بالطهارة وشك في الحدث فهو على الطهارة، ومن أيقن بالحدث وشك في الطهارة فهو على الحدث، لأن ‌اليقين ‌لا يبطل بالشك."

(كتاب الطهارة، فصل بيان ما ينقض الوضوء، ج:1، ص:33، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"جب ہوانکلنے کا یقین نہیں ہے تو صرف وہم ہوتے رہنے سے وضوء نہیں ٹوٹے گا اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئیے۔"

(کتاب الطہارۃ، ج:4، ص:28، ط:دارالاشاعت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102816

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں