بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ریش بچہ اور اس کے اطراف کے بال مونڈنے کا حکم


سوال

 نچلے ہونٹ کے نیچھے جو بال ہے جس کو عربی میں عنفقہ کہتے ہیں اس کے دائیں بائیں بال کا کاٹنا اور اکھیڑنا جائز ہے یا نہیں؟  اگر جائز نہیں تو جلالین کے حاشیہ میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عنفقہ کا ترک افضل اور طرفین عنفقہ کا حلق جائز ہے (جلالین جلد 1 ص: 18، ط: قدیمی کتب خانہ) ، اور اگر جائز ہے تو پھر کتب فقہ میں جو بدعت لکھا ہے اس کا کیا جواب ہے ۔

اسی طرح احیاء العلوم (1 / 205 ) میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تعالٰی کا ایک اثر نقل کیا ہے، جس  میں"کان منتف فنیکیه" کے الفاظ لکھے ہیں، جبکہ احکام القرآن للجصاص (ج ۶۸۹/۱ / قدیمی کتب خانہ) میں عبد الباقی بن قانع کی سند سے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ کا اثر نقل کیا ہے ، اور اس میں "وكان ينتف عنفقته" کے الفاظ لکھے ہیں، تو بظاہر ان دونوں اثروں میں بھی تعارض ہے، اب ان دونوں اثروں میں کونسا اثر صحیح اور راجح ہے اور اصل مدار کسی کو بنائیں ۔ تسلی بخش جواب دے کر عنایت فرمائیں۔ 

جواب

1۔نچلے ہونٹ کے نیچے کے بال جنہیں عربی میں عنفقہ اردو  میں ریش بچہ کہتے ہیں،  اسی طرح عنفقہ کے دائیں بائیں کے بال جنہیں عربی میں  فنیکین کہا جاتا ہے، جمہور فقہاءِکرام کے نزدیک  یہ سب داڑھی کا ہی حصہ ہیں، انہیں کاٹنا بدعت ہے، لہذا انہیں نہیں کاٹنا چاہیے۔

حاشیہ جلالین میں ہے:

"در حلق موئے زیر لب کہ آنرا عنفقہ گویند نیز اختلاف است، و أفضل ترک آنست، و اما حلق طرفین عنفقہ لا بأس بہ است۔"

(سورہ بقرہ، ۱ / ۱۸، ط:قدیمی)

باقیات فتاوی رشیدیہ میں ہے:

"(٧١٤)ریش بچہ کے منڈوانے کا حکم:

سوال: زیر لب زیریں ہر دو جانب ریش بچہ کے، بال منڈوانا جائز ہے یا نہیں؟

 جواب:   ریش بچہ کو منڈوانا درست نہیں۔ ( بدست خاص، سوال: ٧٣)"

(کتاب الحظر والاباحہ، مردوں اور عورتوں کے بعض مسائل، ص:٣٧٥، ط: دار الکتاب)

بہشتی زیور میں ہے:

"مسئلہ ٩: ریش بچہ کے جانبین لب زیرین کے بال منڈوانے کو فقہاء نے بدعت لکھا ہے، اس لیے مونڈنا نہ چاہئے۔"

( بالوں سے متعلق  احکام، حصہ یازدہم، صفحہ ١٠٩، ط: دار الاشاعت)

فتاوی دارالعلوم دیوبند از مفتی عزیز الرحمن عثمانی رحمہ اللہ میں ہے:

"نیچے کے ہونٹ کے بال کاٹنا کیسا ہے؟

سوال: (۴۸۸) نیچے کے لب سے بعض آدمی بال منڈاتے ہیں، جو ٹھوڑی سے اوپر ہوتے

ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ یہ ڈاڑھی میں شامل ہیں اس میں شرعا کیا حکم ہے؟ (۲۷۱۱ / ۱۳۳۷ھ )

الجواب : شامی جلد خامس حظر والاباحہ میں ہے: "نَتْفُ الفَنِيكَيْنِ بدعة وهما جانبا العَنْفَقَةِ وهي شعر الشفة السفلى" اس سے معلوم ہوا کہ نیچے کے ہونٹ کے بال نہ کاٹے۔"

(بالوں اور ختنہ کے احکام، ١٦ / ٢٥٦، ط: مکتبہ دارالعلوم دیوبند)

شرح سنن أبي داود للعينيمیں ہے:

"وقد ذكر العلماء في اللحية اثني عشر خصلةمكروهة، بعضها أشد قبحا من بعض: ... السابعة: الزيادة فيها، والنقص منها بالزيادة في شعر العذارين من الصدغين، أو أخذ بعض العذار في حلق الرأس، ونتف جانبي العنفقة."

(كتاب الطهارة، باب السواك من الفطرة، ١ / ١٦٣، ط: مكتبة الرشد - الرياض)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاحمیں ہے:

"وفي الفتاوى الهندية عن الغرائب نتف الفنيكين بدعة وهما جانبا العنفقة اهـ قال في الصحاح والقاموس الفنيك بالفاء والنون كامير والمثنى فنيكان وهما مجمع اللحيين أوطرفاهما عند العنفقة وفي الحديث إذا توضأت فلا تنس الفنيكين يعني جانبي العنفقة عن يمين وشمال."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ص: ٥٢٦، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

2۔  سائل نے إحياء علوم الدين  اور احکام  القرآن للجصاص  میں مذکور  جن دو  اثر  میں تعارض کا ذکر کیا ہے، مذکورہ دونوں روایات میں کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں، تاہم إحياء علوم الدين کی روایت میں قدر اختصار جبکہ احکام القرآن کی روایت میں قدر تفصیل ہے، نیز دونوں روایات کا تعلق ایک ہی واقعہ سے ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ کی خدمت میں  ایک شخص آیا   جس نے داڑھی بچہ کے اطراف کے بال اکھیڑے ہوئے تھے،  اور حضرت عمر  بن عبد العزيز رحمہ اللہ نے اس کی گواہی  رد فرما دی تھی۔

إحياء علوم الدين للغزاليمیں ہے:

"ونتف الفنيكين بدعة وهما جانبا العنفقة

شهد عند عمر بن عبد العزيز رجل كان ينتف فنيكيه فرد شهادته و رد عمر بن الخطاب رضي الله عنه وابن أبي ليلى قاضي المدينة شهادة من كان ينتف لحيته وأما نتفها في أول النبات تشبها بالمرد فمن المنكرات الكبار فإن اللحية زينة الرجال فإن لله سبحانه ملائكة يقسمون والذي زين بني آدم باللحى وهو من تمام الخلق وبها يتميز الرجال عن النساء."

(القسم الثالث من النظافة التنظيف عن الفضلات الظاهرة، النوع الثاني فيما يحدث في البدن من الأجزاء، ١ / ١٤٤، ط: دار المعرفة - بيروت)

أحكام القرآن للجصاصمیں ہے:

"وحدثنا عبد الباقي بن قانع قال: حدثنا حماد بن محمد قال: حدثنا شريح قال: حدثنا يحيى بن سليمان عن ابن جريج أن رجلا كان من أهل مكة شهد عند عمر بن عبد العزيز وكان ينتف عنفقته ويخفي لحيته وحول شاربيه، فقال: ما اسمك؟ قال: فلان، قال: بل اسمك ناتف ورد شهادته."

(من سورة البقرة، مطلب: الدهن المتنجس يجوز الانتفاع به بغير الأكل ويجوز بيعه بشرط بيان عيبه، ١ / ٦١٢، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507100779

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں