بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ری سیلنگ کرے پیسے کمانے کا حکم


سوال

آج کل بہت سے آن لائن شاپنگ ایپ ایسے ہیں جو ری سیلنگ کی سہولت فراہم کرتے ہیں جس کے مختلف طریقے ہیں:

(1) ایپ میں کسی سامان کی قیمت مثلاً 200 روپے ہے، اب ہم اس سامان کو ضروری تفصیل کے ساتھ اپنے کسی سوشل میڈیا اکاؤنٹ فیس بک واٹس ایپ وغیرہ پر شیئر کرتے ہیں ، اور کوئی شخص ہماری پوسٹ یا اسٹیٹس دیکھ کر ہمیں میسج کرتا ہے،  اور وہ سامان لینے کی رغبت ظاہر کرتا ہے تو ہم اسے اپنا کچھ منافع رکھ کر زائد قیمت پر مثلاً 250 روپے میں فروخت کرتے ہیں، پھر اس بندے سے پورا ایڈریس لے کر اپنے موبائل سے اس کا آرڈر بک کردیتے ہیں، جو ایڈریس ہم نے ڈالا ہے وہ ایپ اسی جگہ اس سامان کو پہنچا دیتا ہے ، اور جو رقم ہم نے ڈالی ہے یعنی کہ 250 روپے اتنی ہی رقم اس سے وصول کرلیتا ہے، 200 روپے کا سامان تھا تو ایپ نے 200 روپے رکھ لیے،  اور ہم نے 50 روپے اپنے منافع کے رکھے تھے تقریباً ایک ہفتے بعد وہ ہمارے اکاؤنٹ میں آجاتے ہیں ۔

(2) دوسرا طریقہ آن لائن پیمینٹ کا ہے،  اس میں ہمارے کسی جاننے والے نے ہم سے وہ سامان لینے کے لیے کہا تو ہم اس سے پیسے لے لیتے ہیں ، اور بکنگ کے وقت آگے پیسے دے دیتے ہیں یا کبھی ہم پیسے از خود دے دیتے ہیں، اور جس وقت ہمارے ساتھی کے پاس وہ سامان پہنچ جاتا ہے تو وہ ہمیں پیسے دے دیتا ہے ۔

(3) تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم نے کوئی سامان مثلاً 200 روپے میں اپنے پاس منگوایا ، پھر اس سامان پر قبضہ کرکے از خود ہم نے اپنے مشتری کو دے دیا اور اس سے پیسے وصول کرلیے ۔

(4) چوتھا طریقہ یہ ہے کہ ایپ ہمیں یہ سہولت فراہم کرتا ہے کہ ہم اس ایپ میں اپنی دکان کھول کر اس ایپ میں موجود سامان کو زائد قیمت کے ساتھ اپنی دکان میں شامل کرلیں،  ہماری دکان کا نام بھی ہوتا ہے،  پھر ہم اپنی دکان کا لنک شئیر کرتے ہیں اور کوئی شخص ہمارے لنک کے ذریعے ہماری دکان پر پہنچ جاتا ہے،  اور ہماری دکان سے سامان خود آرڈر کرتا ہے وہ ایپ سامان اس مشتری تک پہنچاتا ہے اور زائد قیمت ہمارے اکاؤنٹ میں جمع کرا دیتا ہے ۔

ان چاروں صورتوں میں ہمارا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوتا ہے صرف نفع ملتا ہے، اگر کوئی مشتری سامان لینے کے بعد واپس کرتا ہے تو واپسی کی ذمے داری بھی ایپ ہی لیتا ہے اس میں ہمارا کوئی خرچ نہیں ہوتا ہے اور ان ساری صورتوں میں ہم اپنی حیثیت یہی بناتے ہیں کہ ہم خود بیچ رہے ہیں وکیل نہیں بن رہے ہیں آج کل یہ طریقہ خوب چل رہا ہے کم تنخواہ پانے والے افراد بالخصوص علماء اور ائمہ کے لیے یہ طریقہ کافی مددگار ثابت ہورہا ہے،  اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طریقے سے پیسے کمانا جائز ہے؟ اور مذکورہ ایپ اس سامان کو اصل دکان دار سے خرید کر قبضہ کرنے اور پھر ہمارے مشتری تک اسے پہنچا کر بیچنے کا وکیل بن سکتا ہے یا نہیں؟ اس طریقے پر ابھی تک اگر کوئی کمائی کی ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟اگر مذکورہ طریقہ غلط ہے تو اس کام کا صحیح اور جائز طریقہ کیا ہوسکتا ہے ؟اس کے بارے میں بہتر رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح ہو کہ خرید و فروخت کے نتیجے میں چوں کہ بائع (بیچنے والا) خریدار کو اپنی چیز کا مالک بنا رہا ہوتا ہے، لہذا شرعی طور پر بائع کا سودے کے وقت اس چیز کا مالک یا وکیل  ہونا ضروری ہے، جس چیز کا کوئی شخص مالک یا وکیل نہ ہو، وہ اسے آگے نہیں بیچ سکتا۔ اسی طرح  مالک کے لیے کسی چیز کو بیچنے کے لیے اس کا قبضے میں ہونا بھی لازم ہے۔

1:مذکورہ بالا تفصیل کے روسے یہ  صورت جائز نہیں ہے کیوں کہ اس میں  ایک ایسی چیز کا بیچنا لازم آتا ہے جو کہ حقیقت میں بائع کے پاس موجود نہیں ہوتی  ، اور وہ مشتری کو یہ باور کراتا ہے کہ یہ میرے پاس موجود ہے، اور میں بیچ رہا ہوں ۔

2:یہ  صورت بھی جائز نہیں ہیں ، اس لیے کے اس میں  مبیع (خریدی ہوئی اشیاء) پر قبضہ کرنے سے پہلے ان کو فروخت کرنا لازم آتا ہے جو شرعا ناجائز ہے ۔

3:یہ  صورت  جائز ہے ، البتہ اس بات کا خیال رہے کہ اس چیزپر واقعۃً آپ کا قبضہ ہو اور   اپنے قبضے میں لانے سے پہلے چیز نہ بیچیں، ورنہ نا جائز  ہوگا، ہاں بیع کا وعدہ کیا جاسکتاہے ۔

4: اس صورت میں بھی چوں کہ حقیقت میں سامان موجو د نہیں ہوتا محض اشیاء کی تصاویر اور اشتہار ہوتے ہیں ،اس لیے یہ صورت بھی ناجائز ہے ۔

پہلی اور چوتھی صورت کے جواز کی صورتیں درج ذیل ہیں:

1۔ آن لائن کام کرنے والا فرد  بروکری کے معاہدے کے تحت  خریدارسے آرڈر لے کرمطلوبہ چیز  اصل مالک  سے خریدار تک پہنچائے اور اس عمل پر کمیشن مقرر کرلے تو یہ بھی جائز ہے۔ایسی صورت میں ضروری ہے کہ جائز اشیاء فروخت کی جائیں اور  کمیشن متعین ہو۔

2۔  اگر مبیع بائع کی ملکیت میں موجود ہو اور تصویر دکھلا کر سودا کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں بھی آن لائن خریداری شرعاً درست ہوگی۔ البتہ جواز کی ہر صورت میں خریدار کو مطلوبہ چیز ملنے کے بعد خیارِ رؤیت حاصل ہوگا، یعنی جب "مبیع" خریدار کو مل جائے تو دیکھنے کے بعد اس کی مطلوبہ شرائط کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں اسےواپس کرنے کااختیار حاصل ہوگا۔

جامع المسانید میں ہے :

"عن حكيم قال: قلت: يارسول الله يأتيني الرجل يسألني البيع ليس عندي ما أبيعه ثم أبتاعه من السوق؟ فقال: (لا تبع ‌ماليس ‌عندك)".

(حرف الحاء ، ج: 2 ص: 541 ط: دار خضر للطباعة والنشر والتوزيع بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے : 

"(و منها) أن يكون مملوكًا(ومنها) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده "، ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم" ، ولو باع المغصوب فضمنه المالك قيمته نفذ بيعه؛ لأن سبب الملك قد تقدم فتبين أنه باع ملك نفسه، وههنا تأخر سبب الملك فيكون بائعا ما ليس عنده فدخل تحت النهي، والمراد منه بيع ما ليس عنده ملكا؛ لأن قصة الحديث تدل عليه فإنه روي أن "حكيم بن حزام كان يبيع الناس أشياء لا يملكها، ويأخذ الثمن منهم ثم يدخل السوق فيشتري، ويسلم إليهم فبلغ ذلك رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال لا تبع ما ليس عندك"، ولأن بيع ما ليس عنده بطريق الأصالة عن نفسه تمليك ما لا يملكه بطريق الأصالة، وأنه محال."

(کتاب البیوع ، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه  ج: 5 ص: 146 / 147 ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(بيع عقار لا يخشى هلاكه قبل قبضه ........ لا بیع منقول) قبل قبضه ولو من بائعه."

(کتاب البیوع ، فصل فی التصرف فی المبیع  ج: 5 ص: 147 ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"شراء ما لم يره جائز، كذا في الحاوي. وصورة المسألة أن يقول الرجل لغيره: بعت منك هذا الثوب الذي في كمي هذا، وصفته كذا، والدرة التي في كفي هذه، وصفتها كذا أو لم يذكر الصفة، أو يقول: بعت منك هذه الجارية المنتقب ... وإن أجازه قبل الرؤية لم يجز وخياره باق على حاله، فإذا رآه إن شاء أخذ وإن شاء رده، هكذا في المضمرات".

(کتاب البیوع ، الباب السابع في خيار الرؤية ، الفصل الأول في كيفية ثبوت الخيار وأحكامه ج: 3 ص: 57 ط: دار الفکر )

فتاوی شامی میں ہے:

    "وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية".

(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."

(کتاب البیوع  ج:4  ص: 560ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101794

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں