بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ریکارڈ شدہ تلاوت سننے پر ثواب کا حکم/ ریکارڈ شدہ گانے سننے کا حکم


سوال

1۔کیا ریکارڈ شدہ حسنِ قرأت کے سننے پر ثواب ہے؟

2۔ کیا ریکارڈ شدہ گانے سننے پر و عید ہے؟

جواب

1۔واضح رہےکہ قرآن کی ریکارڈنگ چوں کہ اصل آواز نہیں ہوتی بلکہ اصل آواز کی شبیہ اور مثل ہوتی ہے،تاہم توجہ اور اہتمام سےتلاوت کی ریکاڈنگ سننے سے بھی ثواب ملے گا،لہٰذا اگر کوئی شخص موبائل وغیرہ کے ذریعے خاموشی،توجہ اور دیگر آداب کی رعایت کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت سنے گاتو اسے اس پر ثواب بھی ملے گا،تاہم ایسی جگہ جہاں لوگ لہو ولعب میں مشغول ہوں اور خاموشی سے نہ سن سکتے ہوں وہاں ریکارڈنگ چلانے سے بچنا چاہيے۔

نوٹ: ریکارڈ شدہ تلاوت سننے پر ثواب تو ملے گا، البتہ ریکارڈ شدہ آیت ِ سجدہ سننے سے سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہوگا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ سجدۂ تلاوت کے وجوب کے لیے  تلاوتِ صحیحہ کا ہونا ضروری ہے اور تلاوت کے صحیح ہونے کے لیے تلاوت کرنے والے کا باشعور اور متمیز ہونا ضروری ہے؛کیوں کہ صبی غیر متمیز اور مجنون سے آیتِ سجدہ سننے سے سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہوتا،چوں کہ ریکارڈنگ والا آلہ ایک لاشعور اور بے جان شیئ ہے؛اس وجہ سے اس پر چلنےوالی تلاوت تلاوتِ صحیحہ نہیں اور جب تلاوتِ صحیحہ نہیں تو اس کے سننے سے سجدۂ تلاوت بھی واجب نہیں۔

2۔براہِ راست کسی قاری سے یا ریکارڈ شدہ یعنی مکلف انسان سے تلاوتِ قرآن ادب و احترام کے ساتھ سننے پرجہاں  ثواب ملتا ہے، وہاں براہِ راست کسی گویے سے گانا سننا یا کسی آلہ میں ریکارڈ شدہ گانا سننے پر سخت گناہ بھی ملتا ہے، دونوں طرح گانا سننا ناجائز اور حرام ہے، اس کے ناجائز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، ہر مسلمان پر اس گناہ سے بچنا لازم ہے، اس حرام کام کے مرتکب ہونے والے کے لیے بے شمار وعیدیں ہیں، چنانچہ  ایک حدیثِ مبارکہ میں گانا سننے والے کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالنے کی وعید ہے:

"حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ  نے فرمایا:جو شخص کسی گانے والی باندی کے پاس اس لیے بیٹھے تاکہ اس کا گانا سنے تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا ۔"

ایک اور حدیثِ مبارکہ میں گانا بجانے، سننے والوں کے چہرے مسخ ہونے کی وعید ہے:

"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب مالِ غنیمت کو شخصی دولت بنا لیا جائے، جب امانت کو لوٹ کا مال سمجھا جائے، جب زکوۃ کو تاوان جانا جائے، جب علمِ دین دنیا طلبی کے لیے سیکھا جائے، جب مرد اپنی بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی کرنے لگے، دوست کو قریب رکھے اور باپ کو دور رکھے، جب مسجدوں میں شور و غل ہونے لگے، جب قبیلے کا سردار ان کا بدترین آدمی ہو، جب قوم کا سربراہ ذلیل ترین شخص ہو، جب شریر آدمی کی عزت اس کے شر کے خوف سے کی جانے لگے، جب مغنیہ عورتوں اور باجوں کا رواج عام ہو جائے، جب شرابیں پی جانے لگیں اور جب اس امت کے آخری لوگ پہلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں تو اس وقت تم انتظار کرو سرخ آندھی کا، زلزلے کا، زمین میں دھنسنے کا، صورتیں مسخ ہونے اور بگڑنے کا اور قیامت کی ایسی نشانیوں کا جو یکے بعد دیگرے اس طرح آئیں گی جیسے کسی ہار کی لڑی ٹوٹ جائے تو اس کے دانے ایک کے بعد ایک بکھرتے چلے جاتے ہیں۔"

ایک حدیث شریف میں گانے سے انسان کے دل میں نفاق پیدا ہونے کی وعید ہے:

"حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم  ﷺ نے فرمایا: گانا دل میں اسی طرح نفاق پیدا کرتا ہے جس طرح پانی کھیتی اگاتا ہے ۔"

المدخل لابن الحاج میں ہے:

"عن ‌أنس بن مالك قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: من جلس إلى قينة يسمع منها صب في أذنيه الآنك ‌يوم ‌القيامة."

(فصل في تفسير ومن الناس من يشتري لهو الحديث، ج:٣، ص:١١٩، ط:دار التراث)

سننِ ترمذی میں ہے:

 "عن ‌أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا اتخذ الفيء دولا، ‌والأمانة ‌مغنما، والزكاة مغرما، وتعلم لغير الدين، وأطاع الرجل امرأته وعق أمه، وأدنى صديقه وأقصى أباه، وظهرت الأصوات في المساجد، وساد القبيلة فاسقهم، وكان زعيم القوم أرذلهم، وأكرم الرجل مخافة شره، وظهرت القينات والمعازف، وشربت الخمور، ولعن آخر هذه الأمة أولها فليرتقبوا عند ذلك ريحا حمراء وزلزلة وخسفا ومسخا وقذفا وآيات تتابع، كنظام بال قطع سلكه فتتابع."

(‌‌أبواب الفتن، باب ما جاء في علامة حلول المسخ والخسف، ج:٤، ص:٧١، ط:دار الغرب الإسلامي)

سننِ کبریٰ للبیہقی میں ہے:

"عن ابن مسعود، قال: " ‌الغناء ‌ينبت ‌النفاق في القلب كما ينبت الماء الزرع، والذكر ينبت الإيمان في القلب كما ينبت الماء الزرع."

(باب: الرجل يغني فيتخذ الغناء صناعة يؤتى عليه، ويأتي له، ويكون منسوبا إليه، مشهورا به معروفا، أو المرأة، ج:١٠، ص:٣٧٧، ط:دار الكتب العلمية)

تفسیرِ قرطبی میں ہے:

"ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله بغير علم ويتخذها هزوا أولئك لهم عذاب مهين...و" لهو الحديث": الغناء، في قول ابن مسعود وابن عباس وغيرهما...روى سعيد بن جبير عن أبي الصهباء البكري قال: سئل عبد الله بن مسعود عن قوله تعالى:" ومن الناس من يشتري لهو الحديث" فقال: الغناء والله الذي لا إله إلا هو، يرددها ثلاث مرات. وعن ابن عمر أنه الغناء، وكذلك قال عكرمة وميمون بن مهران ومكحول. وروى شعبة وسفيان عن الحكم وحماد عن إبراهيم قال قال عبد الله بن مسعود: الغناء ينبت النفاق في القلب، وقاله مجاهد، وزاد: إن لهو الحديث في الآية الاستماع إلى الغناء وإلى مثله من الباطل. وقال الحسن: لهو الحديث المعازف والغناء. وقال القاسم بن محمد: الغناء باطل والباطل في النار."

(تفسير سورة لقمان، الآية:٦، ج:١٤، ص:٥٢، ط:دار الكتب المصرية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكذا تجب على السامع بتلاوة هؤلاء إلا المجنون؛ لأن التلاوة منهم صحيحة كتلاوة المؤمن والبالغ وغير الحائض والمتطهر؛ لأن تعلق السجدة بقليل القراءة وهو ما دون آية فلم يتعلق به النهي فينظر إلى أهلية التالي وأهليته بالتمييز وقد وجد فوجد سماع تلاوة صحيحة فتجب السجدة ‌بخلاف ‌السماع ‌من الببغاء والصدى فإن ذلك ليس بتلاوة وكذا إذا سمع من المجنون؛ لأن ذلك ليس بتلاوة صحيحة لعدم أهليته لانعدام التمييز."

(فصل سجدة التلاوة، ج:١، ص:١٨٦، ط:دارالكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي السراج ودلت المسألة أن الملاهي كلها حرام ويدخل عليهم بلا إذنهم لإنكار المنكر، قال ابن مسعود: صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله - عليه الصلاة والسلام - «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع.

(قوله قال ابن مسعود إلخ) رواه في السنن مرفوعا إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - بلفظ: إن الغناء ينبت النفاق في القلب.

 (كتاب الحظر والإباحة، ج:٦، ص:٣٤٨، ط:سعيد)

امداد الفتاویٰ میں ہے:

"یہ صوت جس کی حکایت ہے حکم میں اصل کے تابع ہے، پس اصل اگر مذموم ہے جیسے: معارف و مزامیر وصوت نساء و امار دو یا فحش و معصیت ، اس کی حکایت بھی ایسی ہی مذموم ہے ،اور اگر اصل مباح، (تو)حکایت بھی مباح ہے، اور اگر اصل محمود ہے، تو فی نفسہ تو اس کی حکایت بھی ایسی ہی ہے مگر عارض کے سبب اس میں تفصیل ہو گئی ہے۔"

(کتاب العقائد والکلام، عنوان:شنیدن گراموفون و فوٹو گراف، ج:6، ص:219، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

 حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ "آلاتِ جدیدہ کے شرعی احکام " میں تحریر فرماتے ہیں:

 "یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآنِ کریم جب اس میں (ٹیپ ریکارڈ میں) پڑھنا جائز ہے تو اس کا سننا بھی جائز ہے، شرط یہ ہے کہ ایسی مجلسوں میں نہ سناجائے جہاں لوگ اپنے کاروبار یا دوسرے مشاغل میں لگے ہوں، یاسننے کی طرف متوجہ نہ ہوں،  ورنہ بجائے ثواب کے گناہ ہوگا "۔

    (آلاتِ جدیدہ کے شرعی احکام از مولانا مفتی محمد شفیعؒ،ٹیپ ریکارڈر مشین پر تلاوتِ قرآن کا حکم ،ص:207،ط: ادارۃ المعارف)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102283

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں