بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رضاعی ماں کا کیا حق ہے بچے پر؟


سوال

رضاعی ماں کے کیا حقوق ہیں بچے پر جس کو دودھ پلایا ہو ،اور  ان ماں باپ پر ؟ تاکہ وہ رضاعی ماں کا خیال رکھ سکیں۔

جواب

بچے پر  رضاعی ماں کی تعظیم واکرام لازم ہے، نکاح کے باب میں یہ آپس میں محرم ہیں،  لیکنرضاعی ماں حقوق واجبہ (نان نفقہ اور وراثت وغیرہ ) میں حقیقی ماں کی طرح نہیں ہے ،   ليكن اس  کی مالی مدد کرنا اخلاقی تقاضہ ہے، چنانچہ مشکوٰۃ شریف میں ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں رضاعت کا حق کیسے چکا سکتا ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ ایک غلام یا باندی ( رضاعی ماں کو بطورِ خدمت عطیہ کرنے ) کے ذریعے سے (آپ رضاعت  کا بدلہ چکا سکتے ہو)۔ اور رضاعی ماں  پر  دورانِ  رضاعت بچے کی دیکھ بھال لازم ہے،  اور  بڑے ہونے  کے بعد بچے   کا رضاعی ماں باپ  پر  کوئی حق  (میراث وغیرہ) نہیں۔

"عن أبي الطفيل قال: كنت جالسا مع النبي صلى الله عليه وسلم إذ أقبلت امرأة، فبسط النبي صلى الله عليه وسلم رداءه حتى قعدت عليه، فلما ذهبت قيل: هذه أرضعت النبي صلى الله عليه وسلم.

وهذا يدل على تعظيم أم الرضاع."

(شرح المصابیح لابن الملك : باب المحرمات (3/ 575)،ط.  إدارة الثقافة الإسلامية،الطبعة: الأولى، 1433 هـ - 2012 م)

  (وعن الحجاج بن حجاج الأسلمي عن أبيه) وهو غير الحجاج المشهور فإنه ثقفي ( «أنه قال: يا رسول الله ما يذهب عني» ) أي: يزيل (مذمة الرضاع) أي: حق الإرضاع أو حق ذات الرضاع، في الفائق: المذمة والذمام بالكسر والفتح الحق والحرمة التي يذم مضيعها، يقال: رعيت ذمام فلان ومذمته وعن أبي زيد المذمة بالكسر الذمام وبالفتح الذم، قال القاضي: والمعنى أي شيء يسقط عني حق الإرضاع حتى أكون بأدائه مؤديا حق المرضعة بكماله وكانت العرب يستحبون أن يرضخوا للظئر بشيء سوى الأجرة عند الفصال وهو المسئول عنه (فقال غرة) أي: مملوك (عبد أو أمة).

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:باب المحرمات (3/ 2084)،ط. دار الفكر، بيروت - الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2002م)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

ويجوز شهادة الرجل لوالده من الرضاعة ووالدته؛ لأن الرضاع تأثيره في الحرمة خاصة، وفيما وراء ذلك كل واحد منهما من صاحبه كالأجنبي. (ألا ترى) أنه لا يتعلق به استحقاق الإرث واستحقاق النفقة حالة اليسار والعسرة، وبه يفرق بين الإخوة والولاد فالإخوة لا يتعلق بها استحقاق النفقة عند عدم اليسار بخلاف الولادة والزوجية فإنه يتعلق بهما استحقاق حالتي اليسار والعسرة، ويجوز شهادة الرجل لأم امرأته ولزوج ابنته؛ لأن المصاهرة التي بينهما تأثيرها في حرمة النكاح فقط. فأما ما سوى ذلك لا تأثير للمصاهرة فهي بمنزلة الرضاع أو دونه.

(كتاب الشهادات ، باب من لا تجوز شهادته(16/ 125)،ط. دار المعرفة)

فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201563

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں