کیا اپنی رضاعی خالہ کی علاتی بہن سے نکاح کرنا جائز ہے؟
مسئلہ کی وضاحت کے لیے درج ذیل نقشہ پیش خدمت ہے:
رضاعت کے معاملہ میں جس طرح رضاعی والدہ کی حقیقی بہن رضاعی خالہ ہے، اِسی طرح رضاعی والدہ کی علاتی( باپ شریک) بہن بھی رضاعی خالہ ہی کہلاتی ہے۔ مثلاً مندرجہ بالا نقشہ میں زید کی رضاعی والدہ فاطمہ کی حقیقی بہن عائشہ زید کی رضاعی خالہ ہے اور زید کا اُس سے نکاح جائز نہیں ہے، اِسی طرح اُن کی علاتی ــ(باپ شریک )بہن بھی زید کے لیے رضاعی خالہ ہی ہے۔ لہذا بصورت مسئولہ رضاعی خالہ کی علاتی بہن بھی رضاعی خالہ اور محارم میں سے ہے، اوراُس سے بھی نکاح ناجائز و حرام ہے۔
النتف في الفتاوى میں ہے:
"الأعمام والعمات والأخوال والخالات واعمام وعمات واخوال وخالات الآباء والأمهات والأجداد والجدات وان علوا من اية جهة كانوا لاب وام أو لاب او لام يحرمون بأنفسهم."
(كتاب النكاح، وجوه الحرمة المؤبدة، ج:1، ص253، ط:دارالفرقان - عمان)
حاشية ابن عابدين میں ہے:
"يحرم من الرضاع أصوله وفروعه وفروع أبويه وفروعهم، وكذا فروع أجداده وجداته الصلبيون، وفروع زوجته وأصولها وفروع زوجها وأصوله وحلائل أصوله وفروعه."
(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:31، ط: سعيد)
وفيه ايضاً:
"(حرم) على المتزوج ذكرا كان أو أنثى نكاح (أصله وفروعه) علا أو نزل (وبنت أخيه وأخته وبنتها) ولو من زنى (وعمته وخالته) فهذه السبعة مذكورة في آية -{حرمت عليكم أمهاتكم} [النساء:23]- ويدخل عمة جده وجدته وخالتهما الأشقاء وغيرهن."
(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:28، ط:سعيد)
فقط والله تعالى اعلم
فتوی نمبر : 144612100686
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن