بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رضاعی بہن سے خلوت/رضاعت سے ثابت ہونے والے رشتے/ پردہ کس سے ہے؟


سوال

(1) رضاعی بھائی اپنی رضاعی بہنوں سے نشست و برخاست رکھ سکتا ہے اور ضروری کام سے گھر سے باہر انہیں کہیں لے جاسکتا ہے؟ 

(2) وہ بہن جو رضاعی بھائی کے ساتھ دودھ شریک ہے وہ اس شخص کی بہن کہلاتی ہے یا اس شخص کی ماقبل اور مابعد تمام لڑکیاں مذکورہ رضاعی شخص کی بہن کہلاتی ہیں؟

(3) از روئے شرع کن کن لوگوں سے پردہ کرنا جائز ہے اور کن کن لوگوں سے پردہ کرنا ناجائز ہے؟

جواب

(1) رضاعی بھائی اپنی رضاعی بہن سے میل جول رکھ سکتا ہے اورگھر کے باہر بھی لے جاسکتا ہے  تاہم اگر فتنے کا اندیشہ ہے جیسا کہ آج کل فتنے عام ہیں تو پھر اس سے گریز کرنا چاہیے۔  

(2) رضاعت کی صورت میں ویسے ہی رشتے بنتے ہیں جیسے نسب سے بنتے ہیں، لہذا جس کا دودھ پیا ہو وہ عورت رضیع( دودھ پینے والے) کی ماں اور اس کا شوہر رضیع کا باپ اور اس کی اولاد رضیع کی بھائی بہن، رضاعی باپ کے بھائی بہن رضیع کے چچا، پھوپھیاں اور رضاعی ماں کے بھائی بہن رضیع کے ماموں اور خالہ بن جاتے ہیں، رضاعی بھائی بہنوں کی اولاد بھتیجے اور بھانجے بن جاتے ہیں۔الغرض  جس عورت کا دودھ پیا گیا ہے اس کی تمام اولاد ہی دودھ پینے والے کے بھائی بہن بن چکے  ہیں۔ 

(3)   وہ افراد جن سے عورت کا پردہ نہیں  ہے، وہ یہ ہیں:

(1)  باپ  (2) بھائی  (3)  چچا   (4) ماموں   (5)  شوہر   (6) سسر   (7) بیٹا   (8)  پوتا   (9) نواسہ   (10) شوہر کا بیٹا   (11) داماد   (12) بھتیجا   (13) بھانجا   (14) مسلمان عورتیں   (15) کافر باندی (16)ایسے افراد  جن کو عورتوں کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ ( مثلاً:  چھوٹے بچے جن کو  ابھی یہ سمجھ نہیں کہ عورت کیا ہے، جسے مرد اور عورت میں فرق ہی نہ معلوم ہو)

اس کے علاوہ تمام اجنبیوں سے عورت کا پردہ ہے، ان میں رشتہ دار اور غیر رشتہ دار دونوں شامل ہیں، نامحرم رشتہ دار  یعنی وہ رشتہ دار جن سے پردہ لازم  ہے، وہ درج ذیل ہیں :

    (1) خالہ زاد   (2) ماموں زاد   (3) چچا زاد   (4) پھوپھی زاد   (5) دیور    (6) جیٹھ   (7) بہنوئی   (8)نندوئی   (9) خالو    (10) پھوپھا   (11) شوہر کا چچا   (12)  شوہر کا ماموں   (13)شوہر کا خالو   (14) شوہر کا پھوپھا   (15) شوہر کا بھتیجا    (16) شوہر کا بھانجا۔

حاشية ابن عابدين  (6/ 369):

’’ (قوله :  إلا الأخت رضاعا) قال في القنية: وفي استحسان القاضي الصدر الشهيد، وينبغي للأخ من الرضاع أن لا يخلو بأخته من الرضاع، لأن الغالب هناك الوقوع في الجماع اهـ. وأفاد العلامة البيري أن ينبغي معناه الوجوب هنا ‘‘

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، ط: سعيد)

 الفتاوى الهندية  (1/ 343):

’’ يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت امرأة من لبنه رضيعا فالكل إخوة الرضيع وأخواته وأولادهم أولاد إخوته وأخواته وأخو الرجل عمه وأخته عمته وأخو المرضعة خاله وأختها خالته وكذا في الجد والجدة ‘‘

(كتاب الرضاع، ط: رشيدية) 


فتوی نمبر : 144304100416

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں