بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رضاعی پھوپھی سے نکاح ہو گیا اور بچی بھی ہوگئی تو اس کا کیا حکم ہے


سوال

فتوی نمبر144410101018  سے یہ بات واضح ہوئی کہ رضاعی پھوپھی سے نکاح کرنا حرام  ہے لیکن سوال مذکور صورت میں خالد کے بیٹے زبیر نے شاہد کی بیٹی سے نکاح کیا ہے جو زبیر کی رضاعی پھوپھی ہے اور زبیر کی شاہد کی بیٹی سے بچی بھی پیدا ہوچکی ہے یہ بات تو واضح ہے کہ شریعت کی رو سے ان دونوں کا نکاح درست نہیں لیکن یہ دونوں زوجین اب جدا ہونے پر راضی نہیں  تو اس کی کیا صورت  ہو گی اور اگر بالفرض راضی بھی ہوجائیں تو اس کی کیا صورت ہوگی دونوں صورتوں کی وضاحت فرمائیں ؟

جواب

رضاعی پھوپھی سے نکاح کرنا ویسے ہی حرام ہے جیسے سگی  پھوپھی سے نکاح کرناحرام ہے،لہذا صورت مسئولہ میں زبیر پر لازم ہے کہ شاہد کی بیٹی سے فورا  علیحدگی اختیار کرلے،خواہ نکاح کے حرام ہونے کا علم تھا یا نہیں تھا اور زبیر   زبان سے بھی کہہ دے کہ اس نے اس بیوی کو چھوڑ دیا ۔نیز   دونوں  تہہ دل سے توبہ اور استغفار کریں ۔اگر اب بھی ساتھ رہے تو ساری زندگی زنا میں مبتلا رہیں گے۔

باقی اس نکاح سے پیدا ہونے والی اولاد کا حکم یہ ہے کہ  مذکورہ نکاح کرتے وقت فریقین کو اس نکاح کی حرمت کا علم نہ تھا تو مذکورہ نکاح فاسد ہے اور نکاح فاسد سے ہونے والی اولاد کا چوں  کہ نسب ثابت ہوتا ہے اس لئے مذکورہ بچہ کا نسب اپنے حقیقی والد سے ثابت ہےاور اگر فریقین کو اس نکاح کی حرمت کا علم تھا  تو مذکورہ نکاح باطل ہے اور نکاح باطل سے پیدا ہونے والی اولاد ثابت النسب نہیں ہوتی ،اس لیے اس صورت میں اس بچہ کا نسب  ثابت نہیں ہوگا ۔

فتاوی شامی میں ہے :

" (قوله: نكاحا فاسدا) هي المنكوحة بغير شهود، ونكاح امرأة الغير بلا علم بأنها متزوجة، ونكاح المحارم مع العلم بعدم الحل فاسد عنده خلافا لهما فتح. مطلب في النكاح الفاسد والباطل.

(قوله: فلا عدة في باطل) فيه أنه لا فرق بين الفاسد والباطل في النكاح، بخلاف البيع كما في نكاح الفتح والمنظومة المحبية، لكن في البحر عن المجتبى: كل نكاح اختلف العلماء في جوازه كالنكاح بلا شهود فالدخول فيه موجب للعدة، أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا، فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة، ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لكونها زنا كما في القنية وغيرها. اهـ.

قلت: ويشكل عليه أن نكاح المحارم مع العلم بعدم الحل فاسد كما علمت مع أنه لم يقل أحد من المسلمين بجوازه وتقدم في باب المهر أن الدخول في النكاح الفاسد موجب للعدة وثبوت النسب، ومثل له في البحر هناك بالتزوج بلا شهود وتزوج الأختين معا، أو الأخت في عدة الأخت، ونكاح المعتدة والخامسة في عدة الرابعة والأمة على الحرة. اهـ".

(کتاب الطلاق،باب العدۃ،3 /516،سعید)

وفيه أيضاّ

"(قوله: لأنه نكاح باطل) أي فالوطء فيه زنا لا يثبت به النسب، بخلاف الفاسد فإنه وطء بشبهة فيثبت به النسب ولذا تكون بالفاسد فراشا لا بالباطل رحمتي، والله سبحانه أعلم".

(كتاب الطلاق،باب الحضانة،3 /555،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100557

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں