بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رضاعی خالہ سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے


سوال

میری ساس نے اپنی بھتیجی ”لیلہ“ اور میرے بڑے بیٹے ”شعیب “ کو ایک ساتھ دودھ پلایا ہے، تو ”شعيب“ اور ” ليلہ“  آپس میں رضاعی بھائی بہن بن گئے، اب  میں نے اپنے چھوٹے بیٹے ”اسماعیل“ کی منگنی  ”لیلہ“ کے ساتھ کردی ہے؛ کیوں کہ وہ رضاعی  بھائی بہن نہیں تھے، لیکن پھر ذہن میں یہ بات آئی کہ ”لیلہ“ تو میری بیوی کی رضاعی  بہن بن رہی  ہے، کیوں کہ ساس نے ”لیلہ“ کو دودھ پلایا ہے، تو کیا میرے بیٹے اسماعیل کا لیلہ سے نکاح ہوسکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  جب مذکورہ لڑکی  ”لیلہ“ نے سائل کی ساس (یعنی سائل کی بیوی کی والدہ) کا دودھ پیا  ہے، تو سائل کی بیوی اور ”لیلہ“ آپس میں رضاعی بہنیں ہوگئی ہیں ، اور ”لیلہ“سائل کے اسی بیوی سے ہونے والے بیٹے  ”اسماعیل“  کی رضاعی خالہ بن گئی  ہے، جس طرح حقیقی خالہ سے نکاح جائز نہیں  ہے،  اسی طرح رضاعی خالہ سے بھی نکاح جائز نہیں ہے؛ لہذا سائل کے بیٹے اسماعیل کا لیلہ سے نکاح جائز نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت امرأة من لبنه رضيعا فالكل إخوة الرضيع وأخواته وأولادهم أولاد إخوته وأخواته وأخو الرجل عمه وأخته عمته وأخو المرضعة خاله وأختها خالته وكذا في الجد والجدة".

(1/342، كتاب الرضاع، ط:رشيدية)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100036

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں