بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رضاعی بھانجی سے نکاح کا حکم


سوال

جناب میں نےاپنی دادی جان کا دودھ پیا ہوا ہے ، وہ خود بھی بتا تی تھیں کہ اس نے تین ماہ تک میرا دودھ پیا ہے ، کسی وجہ سے میں والدہ کا دودھ نہیں پی رہا تھا ، پھر دادی صا حبہ نے دودھ پلا یا ، پھر اس کے بعد محلے کی مسجد کے امام صاحب کی بیوی نے باقی عرصہ دودھ پلایا ، میری والدہ اور پھو پھی کو بھی اس بات کا علم ہے ، یہ میری معلومات ہیں ، باقی جن مو لانا صاحب کی بیوی کا میں نے دودھ پیا تھا ، ان کے گھر والوں کو ہوسکتا ہے اس کا علم ہو ،یہ 75,1976کا دورانیہ ہے ، میری پیدائش 22/9/1975 ہے ، ان ماں جی نے ہو سکتا ہے اپنے بیٹوں کو بتا یا ہو، میں 1990 میں کراچی آ گیا تھا ، پھر زیادہ عرصہ یہیں رہا ، چھٹیوں میں ایک ماہ ( قریباً )کے لیے چکر لگا لیا ، میری شادی 2006 میں میری پھو پھی زاد سے ہو ئی ، 2007 میں بچی پیدا ہوئی ، 2010 میں بیٹا ، ابھی دو نوں طالب علم ہیں ، بچی حافظہ بھی ہے ، اور بچہ حفظ کررہا ہے ، اور دونوں عصری تعلیم میں مصروف ہیں ۔ میں ایک سرکاری ادارے میں ملازم ہوں ، اور ہدایہ اکیڈمی میں درجہ ثانیہ کا طا لب علم ہوں ، گذشتہ روز قدوری میں باب الرضا عۃ پڑھتے ہوئے میں نے مفتی صاحب کے سامنے اپنے معاملے کو پیش کیا تو انہوں نے اسی سلسلے میں اپنی تحقیق کے بعد مجھے بتایا کہ آپ کو فتوی لینا ہو گا ۔ عاجز اسی سلسلے میں حا ضر ہوا ہے ، جس وقت میری شادی ہو ئی میں دنیا میں مگن تھا ، اور اس وقت یہ معا ملہ سامنے آیا بھی نہیں ، بعد میں ایک آدھ دفعہ آیا جواب ملا کہ اس بچی نے تو دودھ نہیں پیا ،جس کے ساتھ آپ کی شادی ہوئی ہے ، اس لئے کو ئی مسئلہ نہیں ہے ، جناب والا اس عمل کی سنگینی سے اب آگاہ ہوا ہوں ، اور باری تعا لی کے آ گے توبہ کرتا ہوں ، اور آپ سے اس معا ملہ میں کما حقہ راہنمائی کی عاجزانہ درخواست کرتا ہوں۔ جس وقت دادی جان نے مجھے دودھ پلایا تھا اس وقت میری سب سے چھوٹی پھو پھی کی عمر ۱۷ یا ۱۸ سال تھی ، میں نے اپنی بیوی سے اس بارے میں بات کی تو بیوی نے بتایا کہ اس وقت ماں کی پستاں میں دودھ نہیں ہوتا بچے کو ورغلانے اور خاموش کرنے کے لیے پستان بچے کے منہ میں دیا جاتا ہے ۔

جواب

جب آپ نے اپنی دادی کا دودھ پیا تو آپ دادی کے رضاعی بیٹے بن گئے،پھوپھی آپ کی رضاعی بہن اورپھوپھی کی بیٹی آپ کی رضاعی بھانجی بن گئی، لہذااس سے آپ  کا نکاح شرعا جائز نہیں تھا،دونوں پر لازم ہے کہ فورا علیحدہ ہوجائیں، سائل زبان سے بھی کہہ دے کہ اس نے اپنی بیوی کو چھوڑ دیا اور اب تک  ساتھ رہنے پر دونوں خوب توبہ و استغفار کریں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع و أصولهما و فروعهما من النسب و الرضاع جميعًا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعًا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت امرأة من لبنه رضيعًا فالكل إخوة الرضيع و أخواته و أولادهم أولاد إخوته و أخواته و أخو الرجل عمه و أخته عمته و أخو المرضعة خاله و أختها خالته و كذا في الجد والجدة."

(کتاب الرضاع،ج1،ص343،ط؛دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100317

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں