بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو رضاعی بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا


سوال

کوئی آدمی اپنی بیوی کی رضاعی بہن سے شادی کر سکتا ہے؟

جواب

کسی بھی مسلمان کے لیے بیک وقت دو حقیقی بہنوں کو یا رضاعی بہنوں  کو  نکاح میں جمع کرنا یا بیوی کی عدت میں اس کی بہن سے نکاح کرنا ہرگز جائز نہیں، ایک بہن کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی بہن سے نکاح کرنا قطعاً حرام ہے،  قرآنِ مجید میں ہے:

﴿ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْسَلَفَ﴾ [النساء : 24]

 اور یہ کہ (حرام ہیں تم پر کہ ) تم دو بہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایک ساتھ رکھو ،لیکن جو  (قرآن  کا حکم آنے سے) پہلے ہوچکا۔

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی صراحتًا  اس کی ممانعت موجود ہے۔

اگر مذکورہ شخص نے ایک ہی عقد میں دو بہنوں سے نکاح کیا ہو تو   دونوں سے فی الفور علیحدگی لازم  ہے، اور اگر ایک بہن کے نکاح میں ہوتے ہوئے دوسری بہن سے الگ عقد  میں نکاح کیا ہو تو  دوسری کا نکاح فاسد  ہے، اس سے علیحدگی لازم ہے، تاہم  اگر اس سے کوئی اولاد ہوگئی تو اس کا نسب  اس شخص سے ثابت ہوگا۔

الفتاوى الهندية  (1/ 277):

’’(وأما الجمع بين ذوات الأرحام) فإنه لايجمع بين أختين بنكاح و لا بوطء بملك يمين سواء كانتا أختين من النسب أو من الرضاع، هكذا في السراج الوهاج. والأصل أن كل امرأتين لو صورنا إحداهما من أي جانب ذكراً؛ لم يجز النكاح بينهما برضاع أو نسب لم يجز الجمع بينهما، هكذا في المحيط. فلا يجوز الجمع بين امرأة وعمتها نسباً أو رضاعاً، وخالتها كذلك ونحوها، ويجوز بين امرأة وبنت زوجها؛ فإن المرأة لوفرضت ذكراً حلت له تلك البنت، بخلاف العكس، وكذا يجوز بين امرأة وجاريتها؛ إذ عدم حل النكاح على ذلك الفرض ليس لقرابة أو رضاع، كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم. فإن تزوج الأختين في عقدة واحدة؛ يفرق بينهما وبينه، فإن كان قبل الدخول؛ فلا شيء لهما، وإن كان بعد الدخول يجب لكل واحدة منهما الأقل من مهر مثلها ومن المسمى، كذا في المضمرات. وإن تزوجهما في عقدتين فنكاح الأخيرة فاسد، ويجب عليه أن يفارقها، ولو علم القاضي بذلك يفرق بينهما، فإن فارقها قبل الدخول؛ لا يثبت شيء من الأحكام، وإن فارقها بعد الدخول فلها المهر ويجب الأقل من المسمى ومن مهر المثل، وعليها العدة ويثبت النسب ويعتزل عن امرأته حتى تنقضي عدة أختها، كذا في محيط السرخسي‘‘.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201150

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں