بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رضاعی باپ کی جائیداد میں رضاعی بیٹے کا حصہ نہیں ہے


سوال

ایک شخص کا انتقال ہوا،اس کے ورثاء میں بیوہ،پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔مرحوم کے والدین پہلے ہی انتقال کر گئے تھے،مذکورہ شخص کا ایک پلاٹ جس کی قیمت  ستائیس لاکھ روپے ہے،ورثاء میں کس طرح تقسیم ہوگا،بیوہ نے ایک بچہ بھی گود لیا تھا اور اس کو دودھ بھی پلایا تھا،پھر اس کے اصل والد نے تین سال بعد بچہ واپس لے لیا تھا،کیا اس کا مرحوم کی جائیداد میں حصہ ہوگا یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں مرحومکی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ  سب سے پہلے مرحوم کے حقوق متقدمہ (تجہیزو تکفین کے اخراجات)ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو کل مال سے ادا کرنے کے  بعد،اور مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی  مال کے تہائی  حصہ میں سے  اسے  نا فذ کرنے کے بعد  باقی تمام ترکہ    منقولہ و غیر  منقولہ کو88حصوں میں تقسیم کر کے بیوہ کو11حصے،ہر ایک بیٹے کو14حصے اور بیٹی کو7حصے ملیں گے۔بیوہ نے جس بچہ کو گود لیا تھا،اس کا مرحوم کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت:88/8۔۔مرحوم 

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹی
17
1114141414147

یعنی فیصد کے اعتبار سے بیوہ کو12.50فیصد،ہر ایک بیٹے کو15.909فیصد اور   بیٹی کو  7.954فیصد ملے گا۔

2700000روپے میں سے بیوہ کو337500روپے،ہر ایک بیٹے کو429545.46روپے اور بیٹی کو214772.73روپے ملیں گے۔

وفی الفتاوى الهندية:

"ويستحق الإرث بإحدى خصال ثلاث: بالنسب وهو القرابة، والسبب وهو الزوجية۔"

(کتاب الفرائض/6/ 447/ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100318

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں