ایک شخص فوت ہوچکا ہے، اس نے چار بیٹے، ایک سگی بیٹی اور ایک رضاعی بیٹی چھوڑ ی ہے، اب پو چھنا یہ ہے کہ رضاعی بیٹی کا میراث میں حصہ ہے یا نہیں؟
میراث کا حق نسبی رشتہ میں ہوتاہے، رضاعی بیٹی شرعاً وارث نہیں بنتی، اس کا مرحوم کے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہے، البتہ اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہو ں اور باہمی رضامندی سے اسے ترکہ میں سے کچھ دے دیں تو یہ ان کی طرف سے احسان ہوگا، جس پر وہ اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔
قرآنِ کریم میں ہے :
﴿وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا﴾ [النساء:8]
ترجمہ: اور جب حاضر ہوں تقسیم کے وقت رشتہ دار اور یتیم اور محتاج تو ان کو کچھ کھلا دو اس میں سے اور کہہ دو ان کو بات معقول . ( تفسیر عثمانی) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144108200802
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن