بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رضاعی بھائی کا نکاح رضاعی بیٹی سے ہوسکتا ہے؟


سوال

میری والدہ نے ایک لڑکے کو اور میری بیوی نے ایک لڑکی کو دودھ پلایا ہے ،تو کیا میرے رضاعی بھائی کا نکاح میری رضاعی بیٹی سے ہوسکتا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کی والدہ نے جس لڑکے کو دودھ پلایا ،وہ شرعاً سائل کا رضاعی بھائی ہوا،اور جس لڑکی کو سائل کی بیوی نے دودھ پلایا،وہ سائل کی رضاعی بیٹی ہوئی ،گویا سائل کا رضاعی بھائی اس کی رضاعی بیٹی کا چچا بن گیا ،اور رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں ،لہذاجس طرح نسبی چچا سے نکاح کرنا جائز نہیں ،اسی طرح  سائل کی رضاعی بیٹی کا اپنے رضاعی چچا سے نکا ح کرنابھی  جائز نہیں ہے ۔

صحیح بخاری میں ہے :

"عن عمرة بنت عبد الرحمن، أن عائشة رضي الله عنها، زوج النبي صلى الله عليه وسلم، أخبرتها: أن رسول الله ﷺ كان عندها، وأنها سمعت صوت رجل يستأذن في بيت حفصة، قالت عائشة: فقلت: يا رسول الله، هذا رجل يستأذن في بيتك، قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:أراه فلانا لعم حفصة من الرضاعة، فقالت عائشة: لو كان فلان حيا - لعمها من الرضاعة - دخل علي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:نعم، إن الرضاعة تحرم ما يحرم من الولادة۔

 (کتاب الشھادات،باب: الشهادة على الأنساب، والرضاع المستفيض، والموت القديم،ج:2،ص:936،ط:دار ابن كثير)

فتاوی شامی میں ہے :

"وبيان ذلك أن الحديث دل على أن كل ما يحرم من النسب يحرم نظيره من الرضاع فيقال تحرم الأم نسبا فكذا تحرم الأم رضاعا وتحرم البنت نسبا فكذا تحرم البنت رضاعا وهكذا إلى آخر المحرمات النسبية فأم أخيك الشقيق أو لأم إنما تحرم لكونها أمك لا لكونها أم أخيك ولذا تحرم عليك ولو لم يكن لك أخ منها."

(کتاب النکاح،باب الرضاع،ج:3،ص:215،ط:سعید)

تبيين الحقائق ميں ہے:

"زوج مرضعة لبنها منه أب للرضيع وابنه أخ وبنته أخت ‌وأخوه ‌عم وأخته عمة."

(کتاب الرضاع،ج:2،ص:183،المطبعة الکبری)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102384

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں