بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رضاعت کے ثبوت اور عدمِ ثبوت میں اعتبار بچے کا ہے


سوال

علماء کرام سے یہ پوچھنا ہے کہ ایک خاتون نے ایک بچی کو دودھ پلایا اس حال میں کہ اس خاتون کی بیٹی 7 سال کی تھی، پہلے سے اور کوئی چھوٹا بچہ موجود نہیں تھا، اس حالت میں وہ خاتون اگر کسی چھے ماہ یا ایک سال کی بچی کو دودھ پلاتی ہے تو رضاعت ثابت ہوگی یا نہیں؟

جواب

 مذکورہ خاتون  اگر کسی چھ ماہ یا  ایک سال کی بچی کو یا کسی بچے کو دودھ پینے کی مدت میں دودھ پلائے گی تو رضاعت ثابت ہو جائے گی۔ مرضعہ (دودھ پلانے والی) کے اصول (والدین) اور فروع (اولاد)، رضیع (دودھ  پینے والے بچے) پر حرام ہو جائیں گے، اگرچہ اس وقت دودھ پلانے والی کا کوئی بچہ نہ ہو، یا بچہ بہت بڑا ہوچکا ہو۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"(هو) لغة بفتح وكسر: مص الثدي. وشرعا (مص من ثدي آدمية) ولو بكرا أو ميتة أو آيسة، وألحق بالمص الوجور والسعوط (في وقت مخصوص) هو (حولان ونصف عنده وحولان) فقط (عندهما وهو الأصح) فتح وبه يفتى كما في تصحيح القدوري عن العون، لكن في الجوهرة أنه في الحولين ونصف، ولو بعد الفطام."

(کتاب النکاح، باب الرضاع، ج: 3/ صفحہ: 209، ط: ایچ۔ ایم، سعید)

 الجوهرة النيرة میں ہے:

"(قوله: فإذا مضت مدة الرضاع لم يتعلق بالرضاع تحريم) قال عليه السلام: «لا رضاع بعد الفصال» واختلف أصحابنا فيمن فصل في مدة الرضاع واستغنى عن الرضاع في المدة على قول كل واحد منهم فروى محمد عن أبي حنيفة أن ما كان من رضاع في الثلاثين شهرًا قبل الفطام أو بعده فهو رضاع يحرم وعليه الفتوى."

(کتاب الرضاع، مدة الرضاع، ج:2 / صفحہ:27، ط:  المطبعة الخيرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200646

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں