بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رضاعی ماموں سے نکاح کرنا حرام ہے


سوال

دو بھائی ہیں، دونوں شادی شدہ ہیں،  ایک بھائی کے بیٹی نے دوسرے بھائی کے بیوی کا دودھ پیا  ہے، اب دونوں بھائی کے بیٹا بیٹی  آپس میں رضاعی بھائی بہن بن گئے ہیں۔ دونوں کا  آپس میں نکاح جائز نہیں ہے ۔

اب  جس عورت کا دودھ بیٹی نے  پیا ہے،  اس کے بھائی کے ساتھ اس کا  نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں؟  یعنی رضاعی ماموں سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟

آپ ہمیں قرآن پاک و حدیث نبوی صلی اللہ وسلم کے روشنی میں جواب دیں تاکہ دونوں شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عمل کر سکیں۔

جواب

واضح رہے کہ جس طرح سے ماموں سے بھانجی کا نکاح حرام ہوتا ہے، بالکل اسی طرح رضاعی ماموں سے بھی حرام ہوتا ہے، لہذا  صورت مسئولہ میں  مذکورہ لڑکی کا نکاح اس کے رضاعی ماموں سے کرنا شرعا حرام ہوگا۔

صحیح البخاريمیں ہے:

" ٥٢٣٩ - حدثنا ‌عبد الله بن يوسف: أخبرنا ‌مالك، عن ‌هشام بن عروة، عن ‌أبيه، عن ‌عائشة رضي الله عنها أنها قالت: «جاء عمي من الرضاعة فاستأذن علي، فأبيت أن آذن له حتى أسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فسألته عن ذلك، فقال: إنه عمك، فأذني له قالت: فقلت: يا رسول الله، إنما أرضعتني المرأة ولم يرضعني الرجل، قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنه عمك، فليلج عليك. قالت عائشة: وذلك بعد أن ضرب علينا الحجاب. قالت عائشة: يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة»."

( كتاب النكاح، باب ما يحل من الدخول والنظر إلى النساء في الرضاع، ٧ / ٣٨، ط: السلطانية )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144410100183

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں