بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رضاعی بہن بھائی کے نکاح کا حکم


سوال

دو خالہ زاد نے آپس میں نکاح کیا ہے، ایک خالہ کا بیٹا ہے اور دوسری خالہ کی بیٹی ہے، لیکن ان دونوں نے ایک ہی خالہ سے دودھ پیا ہے، کیا ان دونوں کا نکاح جائز ہے؟ خالہ جو ہے وہ تیسری عورت ہے۔

جواب

ڈھائی سال کی عمر کے اندر اگر کسی بچہ یا بچی نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تو اس سے حرمتِ رضاعت ثابت ہوجاتی ہے یعنی اس دودھ پلانے والی عورت کے تمام نسبی و رضاعی اصول و فروع سے اس بچہ یا بچی کا نکاح حرام ہوجاتا ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر دونوں خالہ زاد لڑکا لڑکی نے ایک ہی خالہ کا دودھ مذکورہ مدت کے اندر پیا ہو یعنی دودھ پیتے وقت دونوں کی عمر ڈھائی سال سے کم تھی تو دونوں کے درمیان حرمتِ رضاعت ثابت ہوگئی اور رضاعی بہن بھائی ہونے کی وجہ سے ان دونوں کا آپس میں نکاح جائز نہیں ہے۔

واضح رہے کہ دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے، دو سال سے زائد عمر کے بچہ یا بچی کو دودھ پلانا جائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی عورت ڈھائی سال کی عمر تک کے بچہ یا بچی کو دودھ پلا دے تو اس سے بھی حرمتِ رضاعت ثابت ہوجاتی ہے، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج:4، ص:2، ط: دار الكتب العلمية):

’’وكذا بناتها يحرمن عليه سواء كن من صاحب اللبن أو من غير صاحب اللبن من تقدم منهن ومن تأخر؛ لأنهن أخواته من الرضاعة وقد قال الله عز وجل {وأخواتكم من الرضاعة} [النساء: 23] أثبت الله تعالى الأخوة بين بنات المرضعة وبين المرضع والحرمة بينهما مطلقا من غير فصل بين أخت وأخت، وكذا بنات بناتها وبنات أبنائها وإن سفلن؛ لأنهن بنات أخ المرضع وأخته من الرضاعة، وهن يحرمن من النسب كذا من الرضاعة.

ولو أرضعت امرأة صغيرين من أولاد الأجانب صارا أخوين لكونهما من أولاد المرضعة فلا يجوز المناكحة بينهما إذا كان أحدهما أنثى، والأصل في ذلك أن كل اثنين اجتمعا على ثدي واحد صارا أخوين أو أختين أو أخا وأختا من الرضاعة فلا يجوز لأحدهما أن يتزوج بالآخر ولا بولده كما في النسب.‘‘

الفتاوى الهندية (ج:1، ص:343، ط: دار الفكر):

’’يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا.‘‘

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:3، ص:217، ط: دار الفكر-بيروت):

’’(و لا حل بين رضيعي امرأة) لكونهما أخوين و إن اختلف الزمن.

قال في الرد:

(قوله: لكونهما أخوين) أي شقيقين إن كان اللبن الذي شرباه منها لرجل واحد أو لأم إن لم يكن كذلك، و قد يكونان لأب كما إذا كان لرجل امرأتان و ولدتا منه فأرضعت كل واحدة صغيرا فإن الصغيرين أخوان لأب، حتى لو كان أحدهما أنثى لا يحل النكاح بينهما كما ذكره مسكين، ح.‘‘

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج:3، ص:238، ط: دار الكتاب الإسلامي):

’’(قوله: وحرم به، وإن قل في ثلاثين شهرا ما حرم منه بالنسب) أي حرم بسبب الرضاع ما حرم بسبب النسب قرابة وصهرية في هذه المدة ولو كان الرضاع قليلا لحديث الصحيحين المشهور: «يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب» ومعناه أن الحرمة بسبب الرضاع تعتبر بحرمة النسب.‘‘

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144203200902

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں