بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رضاعی چچا کا رضاعی بھتیجی سے نکاح کا حکم


سوال

میرے ماموں میرے رضاعی بھائی ہیں اور میرے ماموں کی بیوی میری اپنی بیوی کی رضاعی ماں ہیں کیا اس صورت میں میرا نکاح درست ہے؟

جواب

 صورت  مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل نے اپنی نانی کا دودھ مدت رضاعت میں ہی پیا تھا، اس وجہ سے ماموں رضاعی بھائی بن گیا، دوسری طرف سائل کی بیوی نے سائل کے ماموں کی بیوی کا دودھ پیا تھاتوسائل کی بیوی سائل کی رضاعی بھتیجی ہے اور سائل  اپنی بیوی کا رضاعی چچا ہے ۔  رضاعی چچاکا  اپنی رضاعی بھتیجی سے نکاح ناجائز ہے۔

سنن ابو داؤد میں ہے:

"يحرم ‌من ‌الرضاعة ما يحرم من الولادة."

(كتاب النكاح، باب ما يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب، 287/1، ط: امداديه)

تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:

"(‌ولا) ‌حل (‌بين ‌الرضيعة وولد مرضعتها)أي التي أرضعتها (وولد ولدها) لانه ولد الاخ."

(باب الرضاع، 217/3، ط:سعيد)

اعلاء السنن میں ہے:

"كل امرأة حرمت من النسب حرم مثلها من الرضاع وهن الامهات،وبنات الأخ وبنات الاخت."

(كتاب الرضاع، 123/11، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في الذخيرة: ذكر محمد في نكاح الأصل أن النكاح ‌لا ‌يرتفع ‌بحرمة ‌المصاهرة ‌والرضاع بل يفسد............(قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو بعد المتاركة"

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، 37/3، ط:سعيد)

فقط والله اعلم

 


فتوی نمبر : 144408100538

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں