بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رضاعت کے ثبوت کے لیے گواہوں کی شرط


سوال

زید اپنی سوتیلی پھوپھي  کی بیٹی  زینب سے شادی کرنا چاہتا ہے ،جب کہ ان کی دادی کا دعوی یہ ہے کہ  زید کو میں نے دودھ پلایا تھا، لہذا  زید زینب  سے شادی نہیں کرسکتا ۔براہِ مہربانی رضاعت کے ثبوت کے لیے گواہوں کی شرط اور دیگر شرائط کی وضاحت فرما دیں !

جواب

رضاعت کے ثبوت کے لیے دو عادل مرد ، یاایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی ضروری ہے، صرف ایک مرد ، یادوعورتوں یاکسی ایک عورت کا قول رضاعت کے ثبوت  کے لیے کافی نہیں ہے، لہذاصورتِ مسئولہ  میں اگر   زید  کی دادی کے پاس اس بات پر دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہ ہوں کہ اس نے زید کو دودھ پلایا ہے تو  اس کے لیے سوتیلی پھوپھی کی بیٹی سے   نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا، کیوں کہ  وہ اس کی رضاعی  سوتیلی بھتیجی ہوگی، جس طرح  نسبی سوتیلی بھتیجی سے نکاح کرنا جائز نہیں ، اسی طرح رضاعی سوتیلی بھتیجی سے نکاح کرنا بھی حلال نہیں، لیکن اگر دادی کے پاس گواہ نہیں  ہیں تو  زید کے لیےپھوپھی کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہے،  البتہ اگر   دادی  کی خبر سچی معلوم ہوتی ہو تو بہتر یہ ہے کہ یہ رشتہ نہ کیا جائے، بلکہ کسی اور جگہ رشتہ کردیا جائے۔

العنایہ میں ہے:

"(و لاتقبل في الرضاع شهادة النساء منفردات وإنما تثبت بشهادة رجلين أو رجل وامرأتين) و قال مالك رحمه الله : تثبت بشهادة امرأة واحدة إذا كانت موصوفةً بالعدالة؛ لأن الحرمة حق من حقوق الشرع؛ فتثبت بخبر الواحد، كمن اشترى لحمًا فأخبره واحد أنه ذبيحة المجوسي. ولنا أن ثبوت الحرمة لايقبل الفصل عن زوال الملك في باب النكاح وإبطال الملك لايثبت إلا بشهادة رجلين أو رجل وامرأتين، بخلاف اللحم؛ لأن حرمة التناول تنفك عن زوال الملك فاعتبر أمرًا دينيًّا، والله أعلم بالصواب".

(کتاب الرضاع، 5/158 ط : دار الفکر لبنان)

المبسوط للسرخسی میں ہے :

"(قال:) ولايجوز شهادة امرأة واحدة على الرضاع أجنبيةً كانت أو أم أحد الزوجين، ولايفرق بينهما بقولها، ويسعه المقام معها حتى يشهد على ذلك رجلان أو رجل وامرأتان عدول، وهذا عندنا".

(باب الرضاع 3/681 ط: دار المعرفة، بیروت)

  فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144305100476

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں