بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو راز کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولنے کا حکم


سوال

ایک شخص نے کسی دوست سے وعدہ کیا کہ آپ کا فلاں راز میرے سینے میں دفن رہے گا،  لیکن کوئی شخص وہ راز حاصل کرنے کے لیے اصرار کرتا ہے تو ایسی صورت میں جھوٹ بولنا جائز ہے،  اگر سامنے والے کو تسلی نہ ہو تو جھوٹی قسم کھانا درست ہو گا؟ واضح رہے کہ اگر راز اگل دیا تو وعدہ کا گناہ بھی ہو گا، اور عزت کا بھی،  نیز یہ بھی بتا دیں کہ ایسی صورت حال میں بندہ کیا کرے؟ صرف جھوٹ بولنے پر اکتفا کرے؛ کیوں کہ  قسم تو کسی صورت میں بھی جائز نہ ہو گی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے راز کو امانت رکھنےکا وعدہ کیا ہے، تو اب اس راز کو ظاہر کرنا اور خیانت کرنا جائز نہیں ہے، اور اس صورت میں راز ظاہر کرنے کا مطالبہ کرنے والے سے اولاً صراحۃ انکار کرنے کے بجائے توریہ سے کام لے اور اگر پھر بھی صریح جواب کے علاوہ چارہ نہ ہو یہ کہا جاسکتا ہے کہ میرے پاس کوئی راز نہیں ہے، تاہم اس پر قسم کھانا جائز نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"واعلم أن الكذب قد يباح وقد يجب والضابط فيه كما في تبيين المحارم وغيره عن الإحياء أن كل مقصود محمود يمكن التوصل إليه بالصدق والكذب جميعا، فالكذب فيه حرام، وإن أمكن التوصل إليه بالكذب وحده فمباح إن أبيح تحصيل ذلك المقصود، وواجب إن وجب تحصيله كما لو رأى معصوما اختفى من ظالم يريد قتله أو إيذاءه فالكذب هنا واجب وكذا لو سأله عن وديعة يريد أخذها يجب إنكارها، ومهما كان لا يتم مقصود حرب أو إصلاح ذات البين أو استمالة قلب المجني عليه إلا بالكذب فيباح، ولو سأله سلطان عن فاحشة وقعت منه سرا كزنا أو شرب فله أن يقول ما فعلته، لأن إظهارها فاحشة أخرى، وله أيضا أن ينكر سر أخيه".

(کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی البیع، ج:6، ص:427، ط:ایچ ایم سعید)

فتاویٰ عالمگیری (الفتاوى الهندية) میں ہے:

"غموس، وهو الحلف على إثبات شيء، أو نفيه في الماضي، أو الحال يتعمد الكذب فيه فهذه اليمين يأثم فيها صاحبها، وعليه فيها الاستغفار، والتوبة دون الكفارة".

(کتاب الأیمان، الباب الثانی فیمایکون یمینا، اليمين بالله ثلاثة أنواع، ج:2، ص:52، ط:مکتبہ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں