بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ریان حنظلہ حیان اریب حمدان معاویہ نام رکھنا


سوال

میں نے اپنے بیٹوں کے نام 1۔محمد ریان حنظلہ 2۔محمد حیان اریب 3۔محمد حمدان معاویہ رکھے ہیں۔کیا یہ سب نام درست ہیں؟

جواب

1۔"ریان" را کے زبر ،یا کی تشدید اور زبر کے ساتھ ہے، اس کا معنی "سیراب کرنے والا "ہے، "ریان" جنت کا ایک خاص دروازہ ہے جس سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے، "ریان"  نام  رکھ  سکتے  ہیں۔

صحیح البخاری میں ہے:

"عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن في الجنة بابا يقال له الريان، يدخل منه الصائمون يوم القيامة، لا يدخل منه أحد غيرهم، يقال: أين الصائمون؟ فيقومون لا يدخل منه أحد غيرهم، فإذا دخلوا أغلق فلم يدخل منه أحد."

(کتاب الصوم، باب الریان للصائمین، جلد:3، صفحہ: 25، طبع: السلطانیہ)

2۔"حنظلہ" عربی زبان کا لفظ ہے، یہ لفظ ’’حنظل‘‘ سے ماخوذ  ہے، اور ’’حنظل‘‘ اندرائن کے درخت کو کہتے ہیں، جس کاپھل نارنگی جیساہوتاہے، مگر اندر سے انتہائی تلخ ہوتا ہے، یہ   جلیل القدر صحابی  اورکاتبِ وحی ’’حنظلہ بن ربیع‘‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمیت کئی ایک صحابہ کرام کا نام رہا ہے،اور  جب کوئی نام کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہو تو اس کے معنیٰ کی طرف توجّہ دینے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ کسی نام کے باسعادت اور بابرکت ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا نام ہے۔

لسان العرب میں ہے:

"حنظل: الحنظل: الشجر المر، وقال أبو حنيفة: هو من الأغلاث، واحدته حنظلة...وذات الحناظل: موضع. وحنظلة: اسم رجل. وحنظلة: قبيلة. قال الجوهري: حنظلة أكرم قبيلة في تميم، يقال لهم حنظلة الأكرمون وأبوهم حنظلة بن مالك بن عمرو بن تميم."

(حرف اللام، فصل الحاء المهملة، ج:11، ص:184، ط:دار صادر)

تاریخ دمشق لابن عساکر میں ہے:

"حنظلة بن الربيع بن صيفي ابن رباح بن الحارث بن معاوية بن مخاشن أبو ربعي التميمي ثم الأسيدي ،كاتب رسول الله (صلى الله عليه وسلم) روى عن النبي (صلى الله عليه وسلم) أحاديث."

(ج:15، ص:330، ط:دارالكتب العلمية)

3۔"حَیّان"  کے معنی  "زندہ " ،"طویل عمر والا "اور "بیدار"  کے ہیں۔ متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا  نام ”حیّان“تھا،  اس لیے یہ  نام رکھنا جائز ہے۔

اسد الغابۃ میں ہے :

‌"حيان بن الأبجر الكناني له صحبة، وشهد مع علي صفين......‌حيان الأعرج بعثه النبي صلى الله عليه وسلم إلى البحرين.....‌حيان بن بح الصدائي نزل مصر، له صحبة.......‌حيان بن ضمرة ذكره عبدان، أيضا....‌حيان بن قيس.........قال البخاري: ‌حيان بن ملة أخو أنيف بن ملة، له صحبة."

(‌‌حرف الحاء،‌‌باب الحاء والياء،ج2،ص99-101،رقم:1311-1318،ط:دار الكتب العلمية)

الكتاب لسيبويه میں ہے:

"وتقول في فعلانٍ من قويت قوانٌ. وكذلك فعلانٌ من حييت حيانٌ، تدغم ."

(‌‌باب ما قيس من المعتل،ج4،ص409،ط:مكتبة الخانجي)

4۔’’اریب‘‘  کے معنیٰ عقل مند کے آتے ہیں ،یہ نام رکھنا درست ہے۔

وفي تاج العروس من جواهر القاموس :

"الأريب وهو العاقل لا يختل عن عقله."

(2/ 23الناشر دار الهداية)

5۔ـ’’حمدان‘‘ کامعنی ہے: (اللہ تعالیٰ کی) خوب تعریف کرنے والا،یہ اسلامی تاریخ میں کئی مقدس ہستیوں جیسا  کہ تابعین اور تبع تابعین کا نام اور لقب  رہا ہے۔یہ نام رکھنا درست ہے۔

"الطبقات الكبرى"  میں ہے:

"حمدان ‌بن ‌محمد‌بن ‌سليمان ‌الأصبهاني. ‌روى ‌عن ‌شريك ‌وغيره. ‌وتوفي ‌بالكوفة."

(الطبقة التاسعة، ج: 6، ص: 376،  ط: العلمية)

6۔ "معاویہ" ایک جلیل القدرصحابی  کا اسم گرامی ہے، یہ  کاتبانِ وحی میں سے تھے،یہ  نام رکھنا درست اور باعث برکت ہے۔

اسد الغابۃ میں ہے:

" معاوية بن صخر بن حرب بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف القرشي الأموي.وهو معاوية بن أبي سفيان، وأمه هند بنت عتبة بن ربيعة بن عبد شمس، يجتمع أبوه وأمه في: عبد شمس. وكنيته أبو عبد الرحمن.أسلم هو وأبوه وأخوه يزيد وأمه هند، في الفتح. وكان معاوية يقول: إنه أسلم عام القضية، وإنه لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم مسلما وكتم إسلامه من أبيه وأمه.وشهد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حنينا، وأعطاه من غنائم هوازن مائة بعير، وأربعين أوقية.وكان هو وأبوه من المؤلفة قلوبهم، وحسن إسلامهما، وكتب لرسول الله صلى الله عليه وسلم."

(باب الميم والعين ج: 4 ص: 433 ط: دار الفكر)

حاصل یہ ہے کہ مذکورہ تمام نام رکھنا درست ہیں ،البتہ بچوں کے ناموں میں بہتر یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ وا لسلام  یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموں میں سے کوئی نام رکھا جائے ،لہذا مذکورہ ناموں میں سے جو صحابہ کرام کے نام ہیں ان میں سے نام کا انتخاب کرلیں ،نیز مفرد نام رکھنا بہتر ہے ،البتہ نام کے شروع میں برکت کے لئے محمد کا اضافہ کیا جائے تو مستحسن ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100418

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں