بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روافض کی مجالس کا کھانا کھانے کا حکم


سوال

میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں ،جہاں پر ہماری رہائش ہے وہ جگہ اہل تشیع کی ہے،تو جب بھی کوئی مجلس وغیرہ ہوتی ہے تو سب کمپنی کے ملازمین کو کھانا دیا جاتا ہے جو وہ بناتے ہیں،کیا اس کا کھانا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اہل تشیع کے  ساتھ قلبی تعلق رکھنا درست نہیں ہے،نیز اہل تشیع کی مجالس خاص ان کے مذھب کی تائید ہوتی ہیں اور اکثر اس میں  نذرو نیاز کا کھانا ہوتا ہے جو کہ  عموماًغیر اللہ کے نام پر ہوتا ہے،لہذا ان لوگوں کا کھانا لینے اور کھانے سے  اجتناب کرنا چاہئے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام من شمع أو زيت أو نحوه (قوله تقربا إليهم) كأن يقول يا سيدي فلان إن رد غائبي أو عوفي مريضي أو قضيت حاجتي فلك من الذهب أو الفضة أو من الطعام أو الشمع أو الزيت كذا بحر (قوله باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق. ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك.
ومنه أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى واعتقاده ذلك كفر، اللهم إلا إن قال يا الله إني نذرت لك إن شفيت مريضي أو رددت غائبي أو قضيت حاجتي أن أطعم الفقراء الذين بباب السيدة نفيسة أو الإمام الشافعي أو الإمام الليث أو اشترى حصرا لمساجدهم أو زيتا لوقودها أو دراهم لمن يقوم بشعائرها إلى غير ذلك مما يكون فيه نفع للفقراء والنذر لله عز وجل وذكر الشيخ إنما هو محل لصرف النذر لمستحقيه القاطنين برباطه أو مسجده فيجوز بهذا الاعتبار."

الزواجر عن اقتراف الکبائر میں ہے:

"وقال ‌مالك ‌بن ‌دينار: أوحى الله إلى نبي من الأنبياء أن قل لقومك لا يدخلوا مداخل أعدائي: ولا يلبسوا ملابس أعدائي، ولا يركبوا مراكب أعدائي، ولا يطعموا مطاعم أعدائي فيكونوا أعدائي كما هم أعدائي."

(ص:23، ج:1، ط:دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402101676

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں