بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

Rateglo ایپ سے پیسے کمانے کا حکم


سوال

Rateglo کے نام سے ایک ویب سائٹ ہے،جس میں اشتہار(ایڈز) دیکھ کر اور ان کو اپنے حلقۂ احباب میں شیئر کرکے پیسے کمائے جاسکتے ہیں،پہلے پہل یہ ویب سائٹ ایڈ دیکھنے پر ہمیں ڈالر دیتی ہے جو ہمارے اکاؤنٹ میں جمع ہوجاتے ہیں،جب 80ڈالر پورے ہوجاتےہیں، تب یہ ہمیں پاکستانی کرنسی میں پیسے دیناشروع کرتی ہے،اس ویب سائٹ سے پیسے کمانے کا کیاحکم ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اس کمپنی کا چوں کہ بنیادی اور ابتدائی کام ہی درست نہیں ہے؛اس لیے اس سے پیسے کماناناجائز ہے۔

تفصیل اس کی یہ ہےکہ اشتہار دیکھنااور اس کواپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کرکے پیسے کمانادرحقیقت عقدِ اجارہ ہے،لیکن یہ کام کوئی ایسامعتدبہٖ کام نہیں ہے جس پر عقدِ اجارہ کرکے پیسے کمائے جائیں،نیز اشتہارات میں عموماً جاندار کی تصاویر اور موسیقی وغیرہ بھی موجود ہوتی ہے،جس کو خود بھی دیکھنا اور سننا جائز نہیں ہے،چہ جائیکہ اس کو دوستوں کے ساتھ شیئر کیاجائےاور اس کے ذریعے دوہراگناہ کمایاجائے،لہذا  مکمل طورپر اس کا م سے اور اس کی کمائی سے اجتناب کیاجائے۔

قرآن كريم  میں ہے:

"وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ."

ترجمہ:’’اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو۔‘‘

(سورة المائدة،الآية:٢)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"ومنها أن تكون المنفعة مقصودة يعتاد استيفاؤها بعقد الإجارة ويجري بها التعامل بين الناس؛ لأنه عقد شرع بخلاف القياس لحاجة الناس ولا حاجة فيما لا تعامل فيه للناس فلا يجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها والاستظلال بها؛ لأن هذه منفعة غير مقصودة من الشجر ولو اشترى ثمرة شجرة ثم استأجر الشجرة لتبقية ذلك فيه لم يجز؛ لأنه لا يقصد من الشجر هذا النوع من المنفعة وهو تبقية الثمر عليها فلم تكن منفعة مقصودة عادة وكذا لو استأجر الأرض التي فيها ذلك الشجر يصير مستأجرا باستئجار الأرض، ولا يجوز استئجار الشجر وقال أبو يوسف: إذا استأجر ثيابا ليبسطها ببيت ليزين بها ولا يجلس عليها فالإجارة فاسدة؛ لأن بسط الثياب من غير استعمال ليس منفعة مقصودة عادة وقال عمرو عن محمد في رجل استأجر دابة ليجنبها يتزين بها: فلا أجر عليه؛ لأن قود الدابة للتزين ليس بمنفعة مقصودة ولا يجوز استئجار الدراهم والدنانير ليزين الحانوت، ولا استئجار المسك، والعود وغيرهما من المشمومات للشم؛ لأنه ليس بمنفعة مقصودة ألا ترى أنه لا يعتاد استيفاؤها بعقد الإجارة."

(ص:١٩٢،ج:٤،کتاب الإجارة،فصل في أنواعِ شرائطِ ركن الإجارة،ط:دار الكتب العلمية)

مجمع الأنهر في شرح ملتقي الأبحرمیں ہے:

"(ولا) يجوز أخذ الأجرة ... (أو المعاصي) أي لا يجوز أخذ الأجرة على المعاصي (كالغناء، والنوح، والملاهي) ؛ لأن المعصية لا يتصور استحقاقها بالعقد فلا يجب عليه الأجر، وإن أعطاه الأجر وقبضه لا يحل له ويجب عليه رده على صاحبه وفي المحيط إذا أخذ المال من غير شرط يباح له؛ لأنه عن طوع من غير عقد وفي شرح الكافي لا يجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح، والمزامير، والطبل أو شيء من اللهو ولا على قراءة الشعر ولا أجر في ذلك وفي الولوالجي: رجل استأجر رجلا ليضرب له الطبل إن كان للهو لا يجوز."

(ص:٣٨٤،ج:٢،کتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة،ط:دار إحياء التراث العربي)

شرح المجلة  میں ہے:

"ما حرم أخذه حرم إعطاؤه يعني أن إعطاء الحرام وأخذه سواء في الحرمة، كما أن المكروه أخذه وإعطاؤه مكروه فالرشوة مثلا، كما حرم أخذها حرم إعطاؤها من الراشي."

(ص:٤٣،ج:١،المقدمة،المقالة الثانية،المادۃ:٣٤،ط:دار الجیل)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144506100271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں