بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الاول 1446ھ 11 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ریٹ بڑھنے پر کمپنی کی طرف سے اشیاء پر لکھے پرانے ریٹ پر نئے ریٹ کا اسٹیکر لگاکر بیچنا


سوال

عموما ًکمپنیوں کا مال مارکیٹ تک پہنچنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کمپنی مختلف شہروں میں اپنے ڈسٹیبیوٹر قائم کرتی ہے،وہ کمپنی سے مال خریدتے ہیں، پھر مختلف مارکیٹس میں مال پہنچاتے ہیں ۔

کمپنی جب مال کی قیمت بڑھانے کا ارادہ کرتی ہے تو انہیں پہلے سے بتادیتی ہے کہ اگلے مال کی قیمت میں اصافہ ہوگا ،کمپنی کی طرف سے اشیاء پر ریٹیل قیمت درج ہوتی ہے،اب ڈسٹیبیوٹر یہ کرتے ہیں کہ مارکیٹ  میں یہ بات کہلوادیتے ہیں کہ  اگلا مال مہنگا آئے گا،پھر جو مال ان کے پاس پچھلی قیمت کا رکھا ہوتا ہے ،اس کے مٹانے کے لئے ایک خاص قسم کا لیکوڈ استعمال کرتے ہںں اسے مٹادئتے ہیں، پھر نئی قیمت کے اسٹیکر لگواکر مارکیٹ میں سپلائی کرواتے ہیں ان کا یہ کرنا شرعا کیسا ہے؟

اگر ڈسٹیبیوٹر خود ایسا نہ بھی کرے تو عموما دکان دار حضرات بھی یہ کرتے ہیں کہ پرانی قیمت  مٹادیتے ہیں اور گاہک کو نئی قیمت میں بیچتے ہیں ان کا یہ عمل شرعا کیسا ہے؟

جواب

شریعتِ مطہرہ نے خرید  و  فروخت کی صحت کا مدار عاقدین کی باہمی رضامندی پر رکھا ہے  اور منافع کی مخصوص حد  مقرر نہیں کی، بلکہ اس معاملہ کو عرف پر چھوڑ دیا ہے، تاہم تاجر کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ کسی کی مجبوری کا غلط فائدہ نہ اٹھائے اور  لوگوں کے ساتھ خیر خواہی کی جائے ، اس لیے اتنا منافع لینا چاہیے جس میں فروخت کرنے والے کے ساتھ ساتھ خریدار کی مصالح کی بھی رعایت رہے، اور اس کو اس سے ضرر نہ پہنچے۔

لہذا صورتِ مسئولہ ميں  کمپنی کی طرف قیمت بڑھنے پر  ڈسٹیبیوٹر اور دکاندار کا پرانی قیمت پر خریدے  گئے مال کو مناسب نفع کے ساتھ نئی قیمت پر بیچنا جائز ہے،البتہ پرانے مال کو  نیا  مال کہہ کر فروخت کرناغلط بیانی اور دھوکہ ہے اس سے بچنا ضروری ہے، مال کی حقیقت بتائی جائے پھر جو بھی قیمت طے ہو فروخت کیا جائے ۔

في الفتاوى الهندية:

"ومن اشترى شيئًا وأغلى في ثمنه فباعه مرابحة على ذلك جاز وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - إذا زاد زيادة لايتغابن الناس فيها فإني لاأحب أن يبيعه مرابحة حتى يبين."

(كتاب البيوع،الباب الرابع عشر في المرابحة والتولية والوضيعة،ج:3،ص:161،ط:دار الفكر بيروت)

في درر الحكام في شرح مجلة الأحكام:

"(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء كان مطابقاً للقيمة الحقيقية أو ناقصاً عنها أو زائداً عليها".

(المادة:153،ج:1،ص:124،ط:دار الجيل)

لما رواه الإمام احمد بن حنبل رح في مسنده:

"عن أبي هريرة، أن رجلا جاء إلى النبي - صلي الله عليه وسلم -، فقال: ‌سعر. فقال: "إن الله عز وجل يرفع ويخفض، ولكني لأرجو أن الله عز وجل: وليس لأحد عندي مظلمة".

(ج:8،ص:317،رقم الحديث:8427،ط:دار الحديث،القاهرة)

"ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اشیاء) کے نرخ مقرر فرما دیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں دعا کروں گا، پھر ایک شخص نے آکر عرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! بھاؤ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بھاؤ گھٹاتا اور بڑھاتا ہے اور میں یہ آرزو رکھتا ہوں کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں کہ میں نے کسی پر بھی زیادتی نہ کی ہو"۔

مارواه الإمام أبي داود رح في سننه:

"عن أنس: قال الناس: يا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - غلا السعر ‌فسعر ‌لنا، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إن الله هو المسعر، القابض الباسط الرازق، وإني لأرجو أن ألقى الله عز وجل وليس أحد منكم يطالبني بمظلمة في دم ولا مال".

(باب في التسعير،ج:5،ص:322،رقم الحديث:3451،ط:دار الرسالة العالمية)

"ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے شکایت کی کہ اے اللہ کے رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھاؤ بہت چڑھ گئے ہیں، لہٰذا ہمارے لیے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے، وہی رزق کی تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور میں یہ تمنا رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کسی کا مجھ سے مطالبہ نہ ہو، جانی یا مالی زیادتی کا"۔

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144602100995

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں