بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

رات میں کمانے کا حکم


سوال

نائٹ شفٹ کی ڈیوٹی کرنا کیسا ہے ؟کیونکہ اللہ تعالی نے رات کو تو سونے کے لۓ اور دن کو کمانے کے لۓ بنایا ہے ؛لیکن میں نے فضائل اعمال کی تعلیم میں سنا ہے   جس کا مفہوم ہے کہ رات میں تین گروہ بن جاتے ہیں؛ ایک عبادت میں مصروف ہوجاتا ہے تو اس کی رات اس کے لیے اجر بن جاتی ہے؛ دوسری جماعت برائیوں میں لگ جاتی ہے، جس کی وجہ سے ان کی رات ان کے لئے وبال ہے اور تیسری جماعت سو جاتی ہے تو وہ ایسا ہےکہ نہ اس نے کچھ کمایا اور نہ کھویا تو کیا رات کو کام کرنے سے حلال رزق جو عبادت ہے اس کا کرنا کیسا ہوگااور اللہ تعالیٰ نے دن کو معاش کمانے اور رات سونے کے لۓ بنایا ہے اس کا کیا مطلب ہے۔؟

جواب

 انسان دن میں  رزق حلال کمانے کی کوشش   کرے اور رات کو آرام کرے، قرآن  کریم  کی کئی آیات سے یہی معلوم ہوتاہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دن میں سونا یا رات میں  کاروبار ،نوکری اور ڈیوٹی کرنا، ناجائز و گناہ ہے، بلکہ رات میں کام اور دن میں آرام کرنا بھی  جائز ہے، دن میں آرام جیسے قیلولہ کرنا اور راتوں میں کام کرنا جیسے دکان  کھولنا اور مکان کی حفاظت کے لئے رات میں چوکیداری کرنا اسی طرح کئی ایسے کام ہوتے ہیں جو دن میں پورے نہیں ہوتے ، جب دن چھوٹے ہوں  اور راتیں طویل ہوں، تو دن میں پورے نہ ہونے  والے کام رات میں کئے جاتے ہیں،  کئی ایسے کام ہیں جو دن و رات بلاو قفہ جاری رہتے ہیں ان کو جاری رکھنے کے لئے ملازمین کی ضرورت رہتی ہے تاکہ کام نہ رکے، لہٰذا جو دن کے بجائے رات میں کام کریں، ان کو گناہ گار کہنا جائز نہیں۔ ہاں اگر کوئی کام ہی ناجائز ہو، تو وہ دن میں کیا جائے یا رات میں وہ بہر صورت ناجائز ہی رہے گا۔

تفسیر مظہری میں ہے:

"وَمِنْ رَحْمَتِهِ من للسببية متعلق بجعل لكم قدم عليه للحصر جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ اى فى الليل وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ اى من منافع الدنيا والاخرة فى النهار فهو لف ونشر مرتب وقال الزجاج يجوز ان يكون معناه لتسكنوا فيهما ولتبتغوا من فضله فيهما قلت وعلى هذا انما ذكر بالليل والنهار ولم يقل وجعل لكم الزمان لتغائر أنحاء السكون والابتغاء فيهما وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَاى لكى تشكروا على نعماء الله تعالى."

(القصص أیة:84، ج:7، ص:178، ط:رشیدیة) 

معارف القرآن میں  حضرت مفتی محمد شفیع  صاحب رحمہ اللہ  نے لکھا ہے:

"سُبَانًا ، ثبات سبت سے مشتق ہے جس کے معنی مونڈنے اور قطع کرنے کے ہیں، نیند کو حق تعالیٰ نے ایسی چیز بنایا ہے کہ وہ انسان کے تمام ہموم و عموم اور افکار کو قطع کر کے اسکے قلب کو دماغ کو ایسی راحت دیتی ہے کہ دنیا کی کوئی راحت اسکا بدل نہیں ہو سکتی ، اسی لئے سُبات کا ترجمہ بعض حضرات نے راحت سے بھی کیا ہے ۔ 

نیند بہت بڑی نعمت ہے یہاں حق تعالیٰ نے انسان کو جوڑے جوڑے بنانے کا ذکر فرمانے کے بعد اس کی راحت کے سب سامانوں میں سے خاص طور پر نیند کا ذکر فرمایا ہے ۔ غور کیجئیے تو یہ ایک ایسی عظیم الشان نعمت ہے کہ انسان کی ساری راحتوں کا مدار یہی ہے اور اس نعمت کو حق تعالیٰ نے پوری مخلوق کے لئے عام ایسا فرما دیا ہے۔ کہ امیر، غریب ، عالم ، جاہل، بادشاہ اور مز دور سب کو یہ دولت یکساں بیک وقت عطا ہوتی ہے ، بلکہ دنیا کے حالات کا تجزیہ کریں تو غریبوں اور محنت کشوں کو یہ نعمت جیسی حاصل ہوتی ہے وہ مالداروں اور دنیا کے بڑوں کو نصیب نہیں ہوتی ، اُن کے پاس راحت کے سامان ، راحت کا مکان ، ہوا اور سردی گرمی کے اعتدال کی جگہ ، نرم گدے تکیے سب کچھ ہوتے ہیں جو غریبوں کو بہت کم ملتے ہیں مگر نیند کی نعمت ان گدوں تکیوں یا کوٹھی بنگلوں کی فضا کے تابع نہیں، وہ تو حق تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جو براہ راست اُس کی طرف سے ملتی ہے، بعض اوقات مفلس بے سامان کو بغیر کسی بستر تکیے کے کھلی زمین پر یہ نعمت فراوانی سے دیدی جاتی ہے اور بعض اوقات سازو سامان والوں کو نہیں دی جاتی، ان کو خواب آور گولیاں کھا کر حاصل ہوتی ہے اور بعض اوقات وہ گولیاں بھی کام نہیں کرتیں، پھر غور کرو کہ اس نعمت کو حق تعالیٰ نے جیسا ساری مخلوق انسان اور جانور کے لئے عام فرمایا ہے اور مفت بلا محنت سب کو دی ہے، اس سے بڑی نعمت یہ ہے کہ صرف مفت بلا محنت ہی نہیں بلکہ اپنی رحمت کاملہ سے اس نعمت کو جبری بنا دیا ہے کہ انسان بعض اوقات کام کی کثرت سے مجبور ہو کر چاہتاہے کہ رات بھر جاگتا ہی رہے مگر رحمت حق جل شانہ اس پر جبراً نیند مسلط کر کے اس کو سلا دیتی ہے کہ دن بھر کا تکان دور ہو جائے اور اُس کے قومی مزید کام کے لئے تیز ہو جائیں ، آگے اسی نیند کی عظیم نعمت کا تکملہ یہ بیان فرمایا کہ وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسًا، یعنی رات کو ہم نے چھپانے کی چیز بنا دیا ، اشارہ اس طرف ہے کہ انسان کو فطرتاً نیند اُس وقت آتی ہے جب روشنی زیادہ نہ ہو، ہر طرف سکون ہو، شور شغب نہ ہو۔ حق تعالے نے رات کو لباس یعنی اوڑھنے اور چھپانے کی چیز فرما کر اشارہ کر دیا کہ قدرت نے تمھیں صرف نیند کی کیفیت ہی عطا نہیں فرمائی بلکہ سارے عالم میں ایسے حالات پیدا کر دئیے جو نیند کے لئے سازگار ہوں ۔ اول رات کی تاریکی، دوسرے پورے عالم انسان اور جانور سب پر بیک وقت نیند کا مسلط ہونا کہ جب سبھی سو جائیں گے تو پورے عالم میں سکون ہوگا ورنہ دوسرے کاموں کی طرح اگر نیند کے اوقات بھی مختلف لوگوں کے مختلف ہوا کرتے تو کسی کو بھی نیند کے وقت سکون میسر نہ آتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔

اس کے بعد ارشاد فرمایا، وجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشا کہ انسان کی راحت وسکون کے لئے یہ بھی ضروری کہ اس کو غذا و غیرہ کی ضروریات ملیں ورنہ وہ نیند موت ہو جائے گی ۔ اگر ہمہ وقت رات ہی رہتی اور آدمی سوتا ہی رہتا تو یہ چیزیں کیسے حاصل ہوتیں، ان کے لئے جدو جہد اور محنت اور دوڑ دھوپ کی ضرورت ہے جو روشنی میں ہوسکتی ہے، اس لئے فرمایا کہ تمھاری راحت کو مکمل کرنے کے لئے ہم نے صرف رات اور اس کی تاریکی ہی نہیں بنائی بلکہ ایک روشن دن بھی دیا جس میں تم کاروبار کر کے اپنی معاشی ضروریات حاصل کر سکو، فتبارک اللہ احسن الخالقین۔"

(ج:8، ص:653/654، ط:مکتبہ معارف القرآن)

 ‌‌فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608100959

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں