بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رات کے اندھیرے میں قربانی کا حکم/ خاتون کا از خود قربانی کا جانور ذبح کرنے کا حکم


سوال

1: کیا قربانی کا جانور رات کو ذبح کرسکتے ہیں؟

2: عورت اپنی قربانی کا جانور خود ذبح کرسکتی ہے؟

جواب

1:  اندھیرے میں قربانی کرنا مکروہ ہے؛ کیوں کہ اندھیرے کی وجہ سے ذبح میں جن رگوں کو کاٹنا ضروری ہے، اس میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے، تاہم آج کل تقریباً ہر جگہ بجلی کا انتظام ہے؛  لہذا رات میں اگر روشنی کا بہتر انتظام ہو اور جانور کی رگیں کٹنے میں کسی قسم کی غلطی کا امکان نہ ہو تو پھر رات میں قربانی کرنا مکروہ نہیں ہے۔

2:عورت اگر ذبح کرنا جانتی ہو تو اس کے لیے قربانی کا جانور یا کسی اور غرض سے کوئی جانور ذبح کرنا جائز ہے، ذبیحہ  کے حلال ہونے کے  لیے یہ ضروری نہیں کہ ذبح کرنے والا مردہی ہو ، بلکہ عورت کا  ذبیحہ بھی حلال ہے، چنانچہ حضرت کعب بن مالک  رضی اللہ عنہ   سے مروی ہے کہ ایک خاتون نے پتھر (کی نوک) سے بکری ذبح کی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کے بارے  میں دریافت کیاگیا تو آپ  ﷺ نے اس کے کھانے کاحکم دیا۔

فتاوی شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"(وكره) تنزيها (الذبح ليلا) لاحتمال الغلط.

(قوله: تنزيهًا) بحث من المصنف حيث قال: قلت: الظاهر أن هذه الكراهة للتنزيه ومرجعها إلى خلاف الأولى إذ احتمال الغلط لا يصلح دليلا على كراهة التحريم اهـ. أقول: وهو مصرح به في ذبائح البدائع (قوله: ليلًا) أي في الليلتين المتوسطتين لا الأولى ولا الرابعة، إذ لا تصح فيهما الأضحية أصلا كما هو الظاهر ونبه عليه في النهاية ومع هذا خفي على البعض."

(کتاب الاضحیۃ، ج:6، ص:320، ط:ایج ایم سعید)

فتاوی شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"(فتحل ذبيحتهما، ولو) الذابح (مجنونا أو امرأة أو صبيا يعقل التسمية والذبح) ويقدر

(قوله: ولو الذابح مجنونا) كذا في الهداية والمراد به المعتوه كما في العناية عن النهاية لأن المجنون لا قصد له ولا نية، لأن التسمية شرط بالنص وهي بالقصد وصحة القصد بما ذكرنا، يعني قوله إذا كان يعقل التسمية والذبيحة ويضبط اهـ، ولذا قال في الجوهرة: لا تؤكل ذبيحة الصبي الذي لا يعقل والمجنون والسكران الذي لايعقل اهـ شرنبلالية، لكن في التبيين: ولو سمى ولم تحضره النية صح اهـ فيفيد أنه لا حاجة إلى التأويل كذا قيل، وفيه نظر لقول الزيلعي بعده لأن ظاهر حاله يدل على أنه قصد التسمية على الذبيحة اهـ فإن المجنون المستغرق لا قصد له فتدبر (قوله: يعقل التسمية إلخ) زاد في الهداية: ويضبط، وهما قيد لكل المعطوفات السابقة واللاحقة، إذ الاشتراك أصل في القيود، كما تقرر قهستاني، فالضمير فيه للذابح المذكور في قوله وشرط كون الذابح لا للصبي كما وهم. واختلف في معناه، ففي العناية قيل يعني يعقل لفظ التسمية، وقيل يعقل أن حل الذبيحة بالتسمية ويقدر على الذبح ويضبط: أي يعلم شرائط الذبح من فري الأوداج والحلقوم اهـ."

(کتاب الذبائح، ج:6، ص:297، ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں