بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

راستے سے کانٹے دار ٹہنی ہٹانے پر ایک شخص کی معفرت سے متعلق ایک روایت


سوال

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک شخص راستے پر چل رہا تھا کہ اس نے وہاں کانٹے دار ڈالی دیکھی ، اس نے اسے اٹھا لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ عمل قبول کیا اور اس کی مغفرت کر دی ‘‘۔

کیا مذکورہ حدیث ، احادیث کی کتابوں میں موجود ہے اور کیا اس کا ترجمہ  ٹھیک ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

سوال میں آپ نے  جس حدیث  کے بارے میں دریافت کیا ہے، یہ حدیث"صحيح البخاري"، "صحيح مسلم"، "سنن أبي داود" ودیگر کتبِ احادیث میں مروی ہےاور  آپ کا درج کردہ ترجمہ بھی درست  ہے۔"صحيح البخاري"میں یہ حدیث  دوجگہ ("باب فضل التهجير إلى الظهر"، "بابُ مَن أخذ الغُصن وما يُؤذي الناس في الطريق فرمَى به")  میں مذکور  ہے۔"بابُ فضل التهجير إلى الظهر"میں درج ذیل الفاظ میں مذکورہے:

"حدّثنا قُتيبة عن مالكٍ عن سُميٍّ مَولى أبي بكر بنِ عبد الرحمن عن أبي صالح السمَّان عن أبي هريرة-رضي الله عنه-: أنّ رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم- قال: بينما رجلٌ يمشي بِطريقٍ وجد غُصن شوكٍ على الطريق فأخَّره، فشكرَ اللهُ له فغفرَ له".

ترجمہ:

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایک شخص راستے میں جارہاتھا ، اس نے راستے میں  ایک کانٹے دار ٹہنی پائی  ،( اس اندیشہ سے کہ اس  سے کسی کو تکلیف نہ پہنچ جائے) اس نے وہ ٹہنی  (راستے سے) ہٹادی ،  اللہ تعالی   کو اس کا یہ عمل پسند آیا تو اس کا یہ عمل قبول  کرلیااور اس کے ذریعے اس کی مغفرت کردی‘‘۔

"باب من أخذ الغصن وما يؤذي الناس في الطريق فرمى به"میں   "فأخّره"(یعنی اس نے وہ ٹہنی راستے سے ہٹادی) کی بجائے"فأخذه"(یعنی اس نے وہ ٹہنی لی ( اوراسے ایک طرف پھینک  دیا)کے الفاظ سے مذکور ہے۔

(صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب فضل التهجير إلى الظهر، 1/132، رقم الحديث:652/كتاب المظالم والغصب، باب من أخذ الغصن وما يؤذي الناس في الطريق فرمى به، 3/135، رقم:2472، ط: دار طوق النجاة)

"فتح الباري"میں ہے:

"قوله: فشكرَ اللهُ له أي: رضِي بفعله وقبِل منه، وفيه فضلُ إماطة الأذى عن الطريق، وقد تقدّم في كتاب الإيمان أنّها أدنى شُعب الإيمان".

(فتح الباري، باب فضل التهجير إلى الظهر، 2/139، ط: دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101467

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں