بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

راستے میں گرے ہوئے بینروں اور اشتہاروں کواپنے استعمال میں لانے کا حکم


سوال

بینر اور اشتہار وغیرہ  جو دیواروں پر لٹکائے جاتے ہیں، اگر  گرجائیں تو ان کو استعمال میں لا سکتے ہیں؟

جواب

بصورتِ  مسئولہ جن بینروں اور اشتہاروں کو لگانے کے بعد انتظامیہ کی طرف سے باقاعدہ اتارنے اور محفوظ کرنے کا اہتمام کیا جاتاہو، تو ان بینروں اور اشتہارات کے گرنے کے بعد اپنے استعمال میں لانا ازروئے شرع درست نہیں ہے،البتہ اگر ان کو  لگانے کے بعد انتظامیہ کی طرف سے اتارنے اور محفوظ کرنے کا اہتمام نہیں کیاجاتا تو ایسے گرے ہوئے بینروں اور اشتہارات کا ذاتی طور پر استعمال میں لانے اور اس سے فائدہ لینے  کی گنجائش ہے۔

بذل المجهود في حل سنن أبي داود  میں ہے:

جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: "رَخَّصَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِى الْعَصَا وَالْحَبْلِ وَالسَّوْطِ وَأَشْبَاهِهِ: يَلْتَقِطُهُ الرَّجُلُ يَنْتَفِعُ بِهِ". 

( عن جابر بن عبد الله قال: رخص لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في العصا) بالقصر (والحبل والسوط وأشباهه) أي من الأشياء التافهة ما يُعَدُّ يسيرًا (يلتقطه الرجل ينتفع به) أي الحكم فيها أن ينتفع الملتقط به إذا كان فقيرًا من غير تعريف سنة، أو مطلقًا.

قال السرخسي في "مبسوطه": ثم ما يجده نوعان: أحدهما: ما يعلم أن مالكه لا يطلبه كقشور الرمان والنوى، والثاني: ما يعلم أن مالكه يطلبه، فالنوع الأول له أن يأخذه وينتفع به،وأما النوع الثاني فهو ما يعلم أن صاحبه يطلبه، فمن يرفعه فعليه أن يحفظه ويعرِّفه ليوصله إلى صاحبه، انتهى ملخصًا.

قلت: فالعصا والسوط والحبل إن كان بحيث تدخل في الأشياء التافهة التي لا يطلبها المالك فحكمها أنه لا يجب تعريفها، ويجوز الانتفاع بها للملتقط، وإن كان من النوع الثاني فلا يجوز الانتفاع بها، ويجب تعريفها على حسب قيمتها.

(كتاب اللقطة، ج:6، ص:610، ط:مركز النخب العلمية)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144202200901

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں