بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

راستہ کی مسجد میں یا مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ میں تکرارِ جماعت کا حکم


سوال

راستہ کی مسجد میں یا  مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ  مثلاً گھر میں تکرارِ جماعت کا کیا حکم ہے؟اسی طرح راستہ کی مسجد یا مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ میں  ایک ساتھ دو ،تین جماعتوں کا کیا حکم ہے؟نیز  راستہ کی مسجد یا کسی اور جگہ  میں اگر ایک جماعت ہورہی ہو، اسے چھوڑ کر اپنے کسی ساتھی کا انتظار کرنا اور پھر دوسری جماعت کروانا شرعاً کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی مسجد میں مندرجہ ذیل تین شرائط  موجود ہوں  تو وہاں ایک دفعہ  جماعت کے ساتھ نماز ہوجانے کے بعد دوسری دفعہ حماعت کے ساتھ نما ز ادا کرنا مکروہ ِتحر یمی ہے۔

            وہ تین شرائط مندر جہ ذیل ہیں :

                        ۱۔محلّہ کی مسجد ہو، عام راستہ کی مسجد نہ ہو۔

                        ۲۔پہلی جماعت بلند آواز سے اذان واقامت کہہ کر پڑھی گئی ہو۔

                        ۳۔پہلی جماعت محلّہ کے ایسے لوگوں نے ادا کی ہو جن کو اس مسجد کے انتظامات کا اختیار حاصل ہے۔

                     البتہ اگر دوسری جماعت مسجد میں نہ ادا کی جائے بلکہ مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ مثلاً:گھر میں ادا کی جائے تو  دوسری جماعت کرانامکروہ نہیں ، اسی طرح اگر مذکورہ تین شرطوں میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے تو ایسی صورت میں بھی  دوسری جماعت کرانا مکروہ نہیں ، مثلاً:محلّہ کی مسجد نہ ہو بلکہ راستہ کی مسجد ہو تو اس میں دوسری  جماعت کرانامکروہ نہیں۔

            لہذا صورتِ مسئولہ میں محلّہ کی مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ مثلاً:گھر میں اور اسی طرح راستہ کی مسجد میں دوسری جماعت کرانا مکروہ نہیں، البتہ محلّہ کی مسجد کے علاوہ  کسی اور جگہ میں یا راستہ کی مسجد میں ایک ساتھ دو،تین جماعتیں کرانا یا پہلی حماعت کے دوران اپنے کسی ساتھی کا انتظار کرنا اور پھر بعد میں دوسری جماعت کرانا مناسب نہیں بلکہ جو جماعت پہلے سے ہورہی ہو اسی میں شریک ہوجانا زیادہ بہتر ہے ۔

الدر مع الرد میں ہے:

ويُكره ‌تكرار ‌الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلّة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن ..... (قوله: بأذان وإقامة إلخ) عبارته في الخزائن: أجمع ممّا هنا ونصّها: يُكره ‌تكرار ‌الجماعة في مسجد محلّةبأذان وإقامة إلّا إذا صلّى بهما فيه أولاً غيرُ أهله، لو أهله لكن بمخافتة الأذان، ولو كرّر أهله بدونهما أو كان مسجد طريقٍ جاز إجماعاً كما في مسجدٍ ليس له إمام ولا مؤذّن ويصلّي الناس فيه فوجاً فوجاً، فإنّ الأفضل أن يصلّي كل فريق بأذان وإقامة على حدة كما في أمالي قاضي خان ونحوه في الدرر، والمراد بمسجد المحلّة ما له إمام وجماعة معلومون كما في الدرر وغيرها .... لو دخل جماعة المسجد بعد ما صلّى فيه أهله يصلّون وحداناً وهو ظاهر الرواية  ....عن أبي يوسف أنّه إذا لم تكن الجماعة على ‌الهيئة ‌الأولى لا تُكره وإلاّ تًكره وهو الصحيح، وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة كذا في البزازية انتهى. وفي التتارخانية عن الولوالجية: وبه نأخذ .

(الدر مع الرد، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ،ج:۱،ص:۵۵۳،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100050

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں