میرا تعلق بنوں سے ہے اور میں پشاور کسی کام سے گیا تھا ۔وہاں پشاور میں مجھے ایک کاؤنٹر مل گیا تھا جس سے لوگ ذکر و اذکار کرتے ہیں اب میں واپس بنوں آچکا ہوں اب مجھے اس کا کیا کرنا چاہیے ؟ کیا اسے صدقہ کرنا ضرروی ہے یا میں خود استعمال کر سکتا ہوں ؟
راستے میں پڑی ہوئی رقم اور چیز ، ’’لقطہ ‘‘ کے حکم میں ہوتی ہے، اس کا تفصیلی حکم یہ ہے کہ جس شخص کو ایسی رقم / چیز ملے تو اس رقم / چیز کی حتی الوسع تشہیر کرے، اگر تشہیر کے باوجود مالک کا پتا نہ لگے تو اس کو محفوظ رکھے، تاکہ مالک کے آجانے کی صورت میں مشکل پیش نہ آئے۔ اور (حتی الوسع تشہیر کے ذرائع استعمال کرنے کے باوجود اگر مالک ملنے سے مایوسی ہوجائے تو) یہ صورت بھی جائز ہے کہ مالک ہی کی طرف سے مذکورہ رقم / چیز کسی فقیر کو صدقہ کردے، اور اگر خود زکاۃ کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے۔البتہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد مالک آجاتاہے تواسے اپنی رقم / چیز کے مطالبے کا اختیار حاصل ہوگا۔
لہذا صورت مسئولہ میں سائل کو مذکورہ کاؤنٹر کے مالک کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے اور سائل ضرورت مند ہے تو سائل خود بھی اپنےاستعمال میں لا سکتا ہے اور اگر خود استعمال نہیں کرنا چاہتا تو کسی مستحق زکات کو صدقہ کر دے۔
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے:
"وللملتقط أن ينتفع باللقطة بعد التعريف لو فقيرا، وإن غنيا تصدق بها ولو على أبويه أو ولده أو زوجته لو فقراء، وإن كانت حقيرة كالنوى وقشور الرمان والسنبل بعد الحصاد ينتفع بها بدون تعريف، وللمالك أخذها، ولا يجب دفع اللقطة إلى مدعيها إلا ببينة، ويحل إن بين علامتها من غير جبر".
(الانتفاع باللقطة، ج: 1، صفحہ: 708، ط: دار إحياء التراث العربي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501101973
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن