بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

راستے میں پڑی ہوئی چیز اٹھانے کا حکم


سوال

کوئی گری ہوئی چیز کم یا زیادہ،نقد یا کوئی اور چیز ملے اور ہم نے وہ امانت کے طور پر رکھ لی  ہو تو اگر وہ چوری ہوجائے یا جس نے رکھی  ہو  وہ ہی  فوت ہوجائے تو کیا حکم ہوگا؟ دوسری بات اگر رستے میں کوئی کھانے کی چیز ملے،  کیا ہم کھالیں؟ تیسری بات اگر ایسی جگہ سے جہاں بہت رش ہو جیسے بازار  یا سڑک جہاں اصل مالک کا پتہ  بہت مشکل ہے، کوئی بھی چیز کم یا زیادہ یا رقم جتنی بھی ہوملے تو کیا ہم اسے استعمال کرلیں، اگرچہ ہم صاحبِ  استطاعت بھی ہوں  تو کوئی حرج ہے؟

جواب

 اگر کسی شخص کو راستے میں پیسے یا کوئی چیز  مل جائے   تو  اگر اس کے  مالک کو پہچانتا ہے اور اس تک  پہنچاسکتا ہے اور  چھوڑدینے میں ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں اٹھالے اور  مالک تک پہنچادے، اور اگر یہ امید ہو کہ مالک تلاش کرتا ہوا آئے گا تو نہ اٹھائے۔  اور اگر مالک کو نہ پہچانتا ہو، لیکن چھوڑ دینے کی صورت میں ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہو  تو اٹھالے اور اس صورت  میں وہ ’’لقطہ‘‘  کے حکم میں ہے، اور لقطے  کا حکم یہ ہے کہ اسے مالک تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، اعلان کیا جائے، لیکن اگر  اس کا مالک نہ ملے اور یہ غالب گمان ہو کہ اب مالک اسے لینے نہیں آئے گا اور مزید وقت اس کی حفاظت کا انتظام کرنا مشکل ہو تو اسے صدقہ کرنا ضروری ہے۔   جس شخص کو رقم ملی ہے اگر وہ فقیر  (زکوٰۃ کا مستحق )ہے تو وہ خودبھی استعمال کرسکتا ہے، لیکن اگر وہ فقیر نہیں تو خود استعمال نہیں کرسکتا۔ تاہم صدقہ کرنے یا خود فقیر ہونے کی صورت میں استعمال کرنے کے بعد اصل مالک آجائے اور وہ اپنی چیز یا رقم کا مطالبہ کرے تو تاوان ادا کرنا ہوگا۔

اگر کسی نے گم شدہ حفاظت کی نیت سے اپنے پاس رکھی ہو اور اس کی حفاظت کی پوری کوشش کی، لیکن پھر بھی وہ چوری ہوگئی تو چوں کہ اس شخص کی کوتاہی نہیں ہے، اور لقطہ اس کے پاس امانت ہے؛ لہٰذا اس شخص پر اس کا ضمان نہیں ہوگا۔

اگر کسی شخص نے گم شدہ چیز حفاظت کی غرض سے اپنے پاس رکھی، اور پھر وہ رکھنے والا فوت ہوگیا تو اس کے ورثاء پر لازم ہے کہ وہ گم شدہ چیز کی حفاظت کریں، یا تشہیر کرکے مالک یا اس کے ورثاء تلاش کریں، اور حفاظت مشکل ہو تو اسے صدقہ کرنا ضروری ہوگا، اگر ورثاء مستحق ہوں تو استعمال کرسکتے ہیں، بصورتِ دیگر نہیں۔

اور اگر  کسی نے کوئی چیز  امانت رکھوائی ہے اور اس کے بعد وہ لاپتہ ہوگیا ہو تو اس کاحکم یہ ہے کہ جس شخص نے امانت رکھوائی ہے، اسے حتی الامکان تلاش کیاجائے اور اس کے بارے میں لوگوں سے معلومات حاصل کی جائیں،اگروہ شخص مل جاتاہے تو امانت اس کے حوالے کی جائے اور اگر کسی بھی طرح امانت رکھوانے والے کا پتا نہ چلے یا وہ فوت ہوگیا ہو  تو اس شخص کے ورثاء کو تلاش کیاجائے، ورثاء مل جانے کی صورت میں امانت ان کے حوالے کی جائے،  اگر ان میں سے کوئی صورت بھی ممکن نہ ہو تو   امانت کا حکم بھی "لقطہ " (گم شدہ چیز) کا ہوگا، جس کا حکم ماقبل میں ذکر ہوا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"( وعرف ) أي نادى عليها حيث وجدها وفي المجامع ( إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة ) والثمار ( كانت أمانة ) لم تضمن بلا تعد فلو لم يشهد مع التمكن منه أو لم يعرفها ضمن إن أنكر ربها أخذه للرد وقبل الثاني قوله بيمينه وبه نأخذ حاوي وأقره المصنف وغيره ( ولو من الحرم أو قليلة أو كثيرة ) فلا فرق بين مكان ومكان ولقطة ولقطة ( فينتفع) الرافع ( بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه إلا إذا عرف أنها لذمي فإنها توضع في بيت المال ) تاترخانية و في القنية لو رجا وجود المالك وجب الإيصاء ( فإن جاء مالكها ) بعد التصدق ( خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها) وله ثوابها ( أو تضمينه )".

و في الرد:

"(قوله: ولقطة ولقطة ) أي لا فرق بينهما أي في وجوب أصل التعريف ليناسب قوله إلى أن علم أن صاحبها لايطلبها؛ فإنه يقتضي تعريف كل لقطة بما يناسبها بخلاف ما مر عن ظاهر الرواية من التعريف حولاً للكل".

( الدر المختار ، کتاب اللقطة 4 / 278 ط: سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201180

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں