بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

راستے میں افطاری کاحکم


سوال

لوگوں کا روڈ پر افطاری کرنا کیسا ہے؛ کیوں کہ  کہ وہاں ہر طرح کے لوگ افطاری کرتے ہیں اور یہ بھی پتہ نہیں ہوتا جس پیسے سے افطار کرایا جا رہا ہے وہ کس مصرف کا آیا وہ فدیے کا ہے؟زکاۃ کا ہے؟ یا صدیقہ خیرات کا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں ایک مسلمان کے بارے میں حسنِ  ظن کا حکم ہے،لہذااگر کوئی شخص افطار کراتاہے اور اس کے بارے میں یقین یا ظن غالب  نہ ہو کہ اس کا مال حرام ہے تو اس  کے دسترخوان پر افطار کرناجائزہے ،  البتہ اگر یقین یا ظن غالب  یہ ہو کہ اس  کی کمائی حرام ہےتو اس صورت میں اس میں شرکت کرناشرعاًجائزنہیں ،اسی طرح اگر کسی کو یہ علم ہوکہ افطاری کروانے والااس میں زکات وغیرہ کا رقم خرچ کرتاہے توپھر اس افطاری میں صرف وہ لوگ شرکت کرسکتے ہیں جو زکات کے مستحق ہو ں،صاحب نصاب  افراد کازکوٰۃ کی رقم کی چیز لینااور استعمال کرنا جائز نہیں نیز زکوٰۃ کی رقم سے اگر کوئی چیز دستر خوان پر کھلائی جائےتو اس سے زکوٰۃ ادانہیں ہو گی ،زکوٰۃ کی ادائیگی کے  لیے ضروری ہے کہ  زکوٰۃ کی رقم سے دی گئی وہ چیزکسی تھیلی  وغیرہ میں ڈال کر غریب مستحق  زکوٰۃ   شخص کی ملکیت میں  دے دی جائے۔

فتاوی ھندیہ میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية".

(كتاب الكراهية،باب في الهداياوالضيافات،5/342،ط دارافکر بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم."

(كتاب الزكوٰة،2/257،ط:دارالفکر بیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101358

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں