بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کےلیے وقف شدہ جگہ کو راستہ میں بدلنا اور اس پر ذاتی تصرف کرنے کا حکم


سوال

ہمارے محلے میں تقریبا 60/70 سے پہلے ایک مسجد تعمیر ہوئی، بعد ازاں مسجد میں توسیع کی غرض سے ملحقہ پانی کا نالہ اور راستے کے اوپر چھت ڈال کر مسجد کا صحن بنایاگیا،  جس پر لوگ نماز پڑھنے لگے اور صحن کے نیچے راستہ اور نالہ بدستور قائم رہا،  سال 2014/15 میں مزید توسیع کی غرض سے کچھ مکانات  خرید کر اور کچھ مکانات مالکان نے مسجد کی توسیع کیلئےوقف کر دیئے،  تمام مکانات کو مسجد میں ضم کرتے ہوئے نئے سرے سے مسجد تعمیر کروائی گئی  ،  پرانا راستہ جو مسجد کے صحن کے نیچے تھا، مسجد میں ضم کر کے آخری وقف شدہ مکان میں متبادل راستہ بنایاگیا،  میں نے جب اسی راستے کے ساتھ اپنی مکان کی توسیع شروع کی تو کچھ افراد کی رائے سے اور امام ِمسجد سے پوچھ کر مسجد اور مکان کے درمیان اسی راستے کے کچھ حصے پر چھت ڈال کر دو منزلہ مکان تعمیر کروایا،  چھت اسی نیت کے ساتھ ڈالی کہ بارش میں بھی لوگ محفوظ رہیں گے اور ہمارا بھی فائدہ رہے گا،  اس طرح  ہمارے گاؤں میں کئی گھروں اور مساجد کی  چھتیں  ڈالی  جا چکی ہیں ،  راستہ اب اپنی حدود میں مکمل طور پر آزاد ہے اور عوام الناس کو آمدورفت میں کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ اور ضرر کا سامنا نہیں ہے، بوقتِ توسیعِ مکان اہلیانِ محلہ موجود تھے،  لیکن کسی بھی شخص نے اس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا، تاہم ایک شخص جو بیرون ملک مقیم تھا کچھ عرصہ بعد آیا اور اعتراض اٹھایا کہ راستہ وقف شدہ مکان برائے مسجد کا حصہ ہے اور آپ نے مسجد کی زمین کے اوپر چھت ڈالی ہے،  لہذا اس کی قیمت مسجد کو ادا کی جائے ، حالانکہ محلہ والوں کے مطابق  یہ راستہ پہلے راستے کا متبادل ہے، فرق صرف اتنا ہے  کہ موجودہ راستہ پہلے راستے سے تین فٹ چوڑائی میں زیادہ ہے۔

مذکورہ بالا واقعات کی روشنی میں مندرجہ ذیل سوالا ت کے جوابات دیجئے :

سوال نمبر 1- کیا مذکورہ راستہ کی جگہ مسجد کی ملکیت ہے؟

سوال نمبر 2- اگر یہ مسجد کی ملکیت ہے تو کیا میں  موجودہ راستے کی قیمت لگا کر مسجد کو ادا کر سکتا ہوں؟

سوال نمبر 3- اگر یہ راستہ میں خرید سکتا ہوں تو کیا اس کا پیسہ مسجد میں لگایا جا سکتا ہے؟

سوال نمبر 4- کیا شاہراہِ عام کے اوپر مسجد، مدرسہ یاگھر کی چھت ڈالی جا سکتی ہے ؟

وضاحت: مذکورہ راستہ عام آمد ورفت کےلیے تھا، صرف مسجد کےلیے خاص نہیں تھا، وہ والا راستہ مسجد بننے سے بھی پہلے کا تھا، یعنی شروع میں صرف راستہ گزرتا تھا، پھر اس کے بعد اہلِ محلہ نے اس کے ساتھ مسجد بنائی، بعدازاں اسی راستے کےاوپر چھت ڈال کر مزید توسیع کردی گئی، پھر مزید توسیع کرکے اہلِ محلہ ، مسجد انتظامیہ اور واقفین کی مرضی سے متبادل راستہ بنایا گیا۔

جواب

1،2،3۔واضح رہے کہ  مسجد کے مصالح میں سے راستہ   بھی ہے، لہذا مسجد  کے لیے وقف شدہ مکان میں سے لوگوں کی مسجد میں آمد و رفت کے لیے  راستہ بناناجائز تھا،لیکن یہ راستہ مسجد کے لیے وقف ہے، اس نئے راستے  (جو آخری وقف شدہ مکان میں بنایا گیا ہے اس)کو پرانے  راستے کا بدل نہیں کہا جا سکتاہے،  کیوں کہ  وقف میں تبدیلی جائز نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی خرید و فروخت جائز ہوتی ہے،البتہ شرعی و قانونی طورپر  ہر ایک کو اس میں آمد و رفت کا حق حاصل  ہے،لیکن  کسی کو اس میں ذاتی  تصرف کا حق نہیں ہے، اس لیے  سائل کا مذکورہ راستے کے اوپر اپنے مکان کی چھت ڈالنا درست نہیں تھا،لہذا اس راستہ سے اپنے چھت کو منہدم کرنا اور اس جگہ کو خالی کرناسائل کے ذمہ ضروری ہے۔

4۔ مسجد تنگ ہو ، نمازیوں کے لیے کافی نہ ہو اور راستہ کے علاوہ مسجد کی توسیع کے لیے کوئی اورجگہ نہ ہو تو ایسی صورت میں راستے کے کچھ حصے کو  مسجد میں شامل کیا جا سکتا ہے بایں  طورکہ آنے جانے والوں کو کوئی تکلیف نہ ہو، لیکن مدرسہ یا گھر وغیرہ کی چھت راستہ پر ڈالنا جائز نہیں ہے۔

احياء علوم الدين میں ہے:

"فمن ‌المنكرات ‌المعتادة فيها وضع الاسطوانات وبناء الدكات متصلة بالأبنية المملوكة وغرس الأشجار وإخراج الرواشن والأجنحة ووضع الخشب وأحمال الحبوب والأطعمة على الطرق فكل ذلك منكر إن كان يؤدي إلى تضييق الطرق واستضرار المارة وإن لم يؤد إلى ضرر أصلا لسعة الطريق فلا يمنع منه، نعم يجوز وضع الحطب وأحمال الأطعمة في الطريق في القدر الذي ينقل إلى البيوت فإن ذلك يشترك في الحاجة إليه الكافة ولا يمكن المنع منه وكذلك ربط الدواب على الطريق بحيث يضيق الطريق وينجس المجتازين منكر يجب المنع منه إلا بقدر حاجة النزول والركوب وهذا لأن الشوارع مشتركة المنفعة وليس لأحد أن يختص بها إلا بقدر الحاجة."

(‌‌كتاب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، ج:2، ص:339، ط: دار المعرفة)

فتاویٰ شامی میں ہے: 

"(جعل شيء) أي جعل الباني شيئا (من الطريق مسجدا) لضيقه ولم يضر بالمارين (جاز) لأنهما للمسلمين."

(کتاب الوقف، ج:4، ص:377، ط: سعید)

و فیه ایضًا:

"(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يعار ولا يرهن)."

(کتاب الوقف، ج:4، ص:370، ط:سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں