بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 جُمادى الأولى 1446ھ 02 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

راستہ تنگ ہونے کی صورت میں مسجد کا بعض حصہ راستہ میں شامل کرنا


سوال

ہماری ایک جامع مسجد ہے، جس کے مغرب و شمال میں شارع عام ہے اور مشرق و جنوب میں مسجد کا ملحقہ رقبہ ہے، مسجد کی مغرب شمال کی دیوار کی  چوڑائی 18 انچ ہے، ہم بوجہ مسجد کی عمارت پرانی ہونے کے مسجد کو شہید کر کے دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں، مسجد کی مغربی گلی شارع عام بہت زیادہ تنگ ہے، آمد و رفت میں پریشانی ہوتی ہے، نیز ہمارے پاس جنازہ پڑھنے  کے لیے مستقل جگہ نہیں ہے۔ گلی کو کشادہ کرنے اور اس پر میت کی چار پائی رکھنے کے لیے مسجد  انتظامیہ اور  نمازیوں نے مسجد کے مشرق میں ایک کنال کا پلاٹ خرید کر کے مسجد میں  شامل کیا ہے۔  جس کی مشرق مغرب لمبائی تقریبًا 65  فٹ ہے۔

(1)   کیا ہم شارع عام کو  کشادہ کرنے اور  اس پر نمازِ  جنازہ  پڑھنے  کے لیے مسجد  کی مغربی دیوار کو پیچھے ہٹا سکتے ہیں، جب کہ  اسی مقصد  کے لیے مشرق میں ایک کنال کا پلاٹ مسجد میں شامل کیا گیا ہے۔

(2)  اگر نہیں  ہٹا سکتے تو  کیا ہم 18 انچ کی دیوار کوگلی میں چھوڑ کر مسجد میں نئی دیوار بنا سکتے ہیں؟ مہربانی فرما کر دونوں سوالوں کا جواب  ائمہ اربعہ کے فتاوی جات کی روشنی میں دے کرعند اللہ ماجور ہوں!

جواب

1. جب کسی جگہ شرعی مسجد بن جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے مسجد کے حکم میں باقی رہتی ہے، اس کی  حیثیت تبدیل کرنا کسی صورت جائز نہیں ہوتا، لہذاعام  راستہ کو  کشادہ کرنےکے لیے مسجد کے  کسی حصہ کو راستہ میں شامل کرنا جائز نہیں ہے،اسی طرح مسجد کے کسی حصے کو جنازہ گاہ میں تبدیل کرنا بھی جائز نہیں ہے،بہتر یہ ہے کہ مسجد کے علاوہ کسی کھلے میدان وغیرہ میں جنازہ کی نماز اداکی جائے، اگر کوئی میدان وغیرہ بھی دستیاب نہ ہوتو بامر مجبوری یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ محراب کی طرف میت  کی چارپائی کو مسجد سے باہر رکھ کر امام اوراس کے ساتھ چند لوگ وہیں کھڑے ہوجائیں،اور باقی لوگ اتصال صفوف کا خیال کرتے ہوئے مسجد کی حدود میں رہ کر ان کی اقتداء کریں ۔

2. اٹھارہ انچ کی دیوار  چوں کہ مسجد ہی کاحصہ ہے، لہذا اسے گلی میں چھوڑکرراستہ کا حصہ بنانا  جائز نہیں ہے ۔

الدرالمختار مع ردالمحتار میں ہے

"وإن أراد أهل المحلة أن يجعلوا شيئا من المسجد طريقا للمسلمين فقد قيل ليس لهم ذلك وأنه صحيح."

(کتاب الوقف،مطلب:في جعل شيء من المسجدطریقا، ج:6، ص:579، ط:رشیدية)

وفیه أيضا:

"[فرع] لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية، فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره فيجب هدمه ولو على جدار المسجد، ولا يجوز أخذ الأجرة منه ولا أن يجعل شيئا منه مستغلا ولا سكنى بزازية. وفي الرد: (قوله: ولو على جدار المسجد) مع أنه لم يأخذ من هواء المسجد شيئا. اهـ. ط ونقل في البحر قبله ولا يوضع الجذع على جدار المسجد وإن كان من أوقافه. اهـ.

قلت: وبه ‌حكم ‌ما ‌يصنعه بعض جيران المسجد من وضع جذوع على جداره فإنه لا يحل ولو دفع الأجرة. ۔۔۔۔ (ولو خرب ما حوله واستغني عنه، يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة، (وبه يفتي) حاوي القدسی. وفي الرد : (قوله: ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر (قوله: عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا، وهو الفتوی، حاوي القدسي، وأكثر المشايخ عليه، مجتبى، وهو الأوجه، فتح. اه. بحر."

(کتاب الوقف، فرع بناء بيتا للإمام فوق المسجد، ج:6، ص:550، ط:رشیدية)

ذخيرة الفتاوى في الفقه على المذهب الحنفيمیں ہے:

"الصلاة على الجنازة في المسجد الذي تقام فيه الجماعة على وجوه :

إن كانت الجنازة والإمام والقوم في المسجد، فالصلاة مكروهة بالاتفاق، وإن كان الإمام مع بعض القوم والجنازة خارج المسجد، وباقي القوم في المسجد؛ ذكر نجم الدين النسفي - رحمه الله في فتاويه : أن الصلاة غير مكروهة بالاتفاق وكثير من مشايخنا ذكر في هذه الصورة اختلاف المشايخ بعضهم قالوا : يكره، وإليه مال الشيخ الإمام شمس الأئمة الحلواني. وحكي أن هذه الواقعة وقعت في زمن شمس الأئمة الحلواني  فجلس ولم يصل، وتابعه من كان معه في مسجد الأنبار، ثم زجر الناس على المنبر أشد الزجر، وقال : هذه بدعة. وبعض مشايخنا قالوا : لا تكره  الصلاة في هذه الصورة، وإن كانت الجنازة وحدها خارج  المسجد، والقوم مع الإمام في المسجد، ففيه اختلاف أيضا، وإن كانت الجنازة وحدها في المسجد والإمام والقوم خارج المسجد اختلف المشايخ أيضا."

(کتاب الاستحسان، الفصل الثالث، ج:7، ص:226، ط:دارالکتب العلمية)

العناية بهامش فتح القديرمیں ہے:

"‌وإن ‌كانت ‌الجنازة ‌والإمام ‌وبعض ‌القوم خارج المسجد والباقي فيه لم تكره بالاتفاق."

(كتاب الصلاة، باب الجنائز، فصل في الصلاة على الميت، ج:2، ص:128، ط:دار الفكر، بيروت)

فتاوی رشیدیہ میں ہے:

’’مسجد میں راستہ داخل کرنا

سوال : راستہ میں سے بوجہ ضرورت کے کچھ مسجد میں ڈال دینا کیا حکم رکھتا ہے اور اس کا عکس بھی ہو سکتا ہے اور اس سے کیا مراد ہے کہ جائے مسجد کا تا قیام قیامت یکساں حال ہے ؟ جواب :- راہ کو مسجد میں لانا بشرطیکہ چلنے والوں کو تنگی نہ ہو درست ہے فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔ اس کے عکس کو بھی بعض علماء نے درست کہا ہے مگر بے تعظیمی مسجد کی درست نہیں لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہئے ۔ فقط‘‘

(مساجد کے احکام کا بیان، ص:445، ط: ادراہ اسلامیات لاہور)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144512100002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں