بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد آپ کے توسل سے دعا کرنا


سوال

حضرت محمد صلی اللہ عليه وسلم کی وفات کے بعد بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگی جا سکتی ہے؟

جواب

توسل کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں:

1) توسل بالاعمال: یعنی اپنے کسی نیک عمل کے وسیلے سے یوں دعا کرنا کہ اے اللہ! فلاں عمل کی برکت سے میری فلاں حاجت پوری فرما۔

  یہ صورت بالاتفاق وبلااختلاف جائز ہے اور اس کی دلیل وہ مشہور اور صحیح حدیث ہے جس میں تین افراد ایک غار  میں پھنس گئے تھے اور تینوں نے اپنے نیک عمل کے وسیلے سے دعا کی تو اللہ تعالی نے اس مصیبت سے انہیں نجات عطا فرمائی۔

(بخاری 1 /  493 قدیمی)

2) توسل بالذوات: یعنی اللہ سے کسی نبی علیہ السلام، صحابی رضی اللہ عنہ یا کسی ولی سے اپنے تعلق کا واسطہ دے کر دعا کرنا۔

یہ صورت بھی جمہور اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے، چناچہ قرآنِ کریم کی آیت سے ثابت ہے کہ بنوقریظہ اور بنونضیر کے یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ  ﷺ کے وسیلے سے فتح ونصرت کی دعا کیا کرتے تھے۔  (البقرۃ:89)

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فقرا ومہاجرین کے توسل سے دعا فرماتے تھے۔  (مشکاۃ : 2 / 447 قدیمی)

اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ قحط سالی کے سال حضرت عباس رضی اللہ عنہ (جو اس وقت حیات تھے) کے وسیلے سے دعا فرماتے تھے۔  ( نیل الاوطار : 4 / 8 طبع مصر)

صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: 

"عن أنس بن مالك أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه کان إذا قحطوا استسقی بالعباس بن عبدالمطلب رضي الله عنه فقال: اللهم إنا کنا نتوسل إلیك بنبینا ﷺ فتسقینا، وإنا نتوسل إلیك بعمّ نبینا فاسقنا! قال: فیسقون."

(صحیح البخاري، کتاب العیدین، أبواب الاستسقاء، باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا،(1/137) و کتاب المناقب، ذکر عباس بن عبدالمطلب، (1/526) ط: قدیمي)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانے میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دعا فرماتے تھے، چناں چہ یوں کہتے تھے: اے اللہ ہم آپ سے اپنے نبی ﷺ کے وسیلے سے دعاکرکے بارش طلب کرتے تھے، اب آپ ﷺ کے چچا کے وسیلے سے آپ سے بارش کی دعا کرتے ہیں، چناں چہ بارش ہوجاتی۔

نیز رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نے اپنی تکلیف کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے اسے اہتمام سے وضو کرکے دو رکعت پڑھنے کے ساتھ  اپنے وسیلے سے دعا کرنے کے الفاظ تلقین فرمائے، چناں چہ اسی مجلس میں اس کی بینائی لوٹ آئی۔ (جامع ترمذی، معجم کبیر للطبرانی)

لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے دعا کرنا جائز،  بلکہ اجابتِ دعا میں موٴثر ہے، دعا میں توسل کا ثبوت متعدد احادیث سے ہے۔

شفاء السقام للسبكي (ص: ٣٥٨) میں ہے:

"إن التوسل بالنبي صلي الله عليه وسلم جائز في كل حال قبل خلقه و بعد خلقه في مدة حياته في الدنيا و بعد موته في مدة البرزخ".

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا توسل ہر حال میں جائز ہے، چاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق سے پہلے ہو یا تخلیق کے بعد ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی زندگی میں ہو یا وصال کے بعد حیات برزخی میں ہو۔

سنن الدارمي (1/ 227)

"حدثنا أبو النعمان، حدثنا سعيد بن زيد، حدثنا عمرو بن مالك النكري، حدثنا أبو الجوزاء أوس بن عبد الله، قال: قحط أهل المدينة قحطًا شديدًا، فشكوا إلى عائشة فقالت: "انظروا قبر النبي صلى الله عليه وسلم فاجعلوا منه كوى إلى السماء حتى لايكون بينه وبين السماء سقف. قال: ففعلوا، فمطرنا مطرًا حتى نبت العشب، و سمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم، فسمي عام الفتق."

ترجمہ: اوس بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ  روایت کر تے ہیں کہ ایک مر تبہ مد ینہ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو انہوں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اپنے حالات کی شکایت کی، آپ رضی اللہ عنھا نے فر مایا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس جاؤ اور اس کی ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھول دو کہ قبر مبارک اور آسمان کے درمیان کوئی پر دہ نہ رہے، راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی کیا تو خوب بارش ہو ئی۔اور اُس سال خوب سبزہ اُگا جس کی وجہ سے اونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ محسوس ہوتا کہ چربی کی وجہ سے پھٹ پڑیں گے ۔اس  لیے اُس سال کا نام ہی عام الفتقیعنی  پیٹ پھٹنے کا سال رکھ دیا گیا۔

تفسير الألوسي = روح المعاني (3/ 297):

"و بعد هذا كله أنا لا أرى بأسًا في التوسل إلى الله تعالى بجاه النبي صلّى الله عليه وسلّم عند الله تعالى حيًّا و ميّتًا، و يراد من الجاه معنى يرجع إلى صفة من صفاته تعالى، مثل أن يراد به المحبة التامة المستدعية عدم رده و قبول شفاعته، فيكون معنى قول القائل: إلهي أتوسل بجاه نبيك صلّى الله عليه وسلّم أن تقضي لي حاجتي، إلهي اجعل محبتك له وسيلة في قضاء حاجتي."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201201331

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں