کیا قربانی حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر کرسکتے ہیں اور کیا گھر کے سربراہ کی بھی قربانی کرنا لازمی فرض ہے یا صرف نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر کر سکتے ہیں؟
واضح رہے کہ ہر صاحبِ وسعت شخص جس پر صدقہ فطر واجب ہو اس پر اپنی جانب سے قربانی واجب ہوتی ہے، اپنے علاوہ کسی اور کی طرف سے قربانی شرعًا واجب نہیں، پس اگر کوئی شخص اپنے کسی رشتہ دار کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو اس کی اجازت سے کر سکتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں گھر کے سربراہ اگر صاحبِ نصاب نہ ہو ں تو ان کی طرف سے قربانی واجب نہیں، ہاں اگر سائل کرنا چاہے تو سربراہ کی اجازت سے کرسکتا ہے، لیکن اگر سائل پر قربانی واجب ہے تو سربراہ کی طرف سے قربانی کرنے سے اس کا واجب ادا نہیں ہوگا، اسے اپنی واجب قربانی بہرحال ادا کرنی ہوگی، لہٰذا اگر اس کی گنجائش ہو تو سربراہ کی طرف سے قربانی کرے، بصورتِ دیگر اپنی واجب قربانی ادا کرے۔
البتہ اگر گھر کا سربراہ وفات پاچکا ہو، تو اس صورت میں بھی سائل اپنی قربانی کے علاوہ سربراہ کی طرف سے نفلی قربانی کرسکتا ہے۔ اسی طرح پورے گھرانے کی طرف سے صرف سربراہ کے نام کی قربانی کرنا بھی کا فی نہیں ہے،بلکہ گھر میں موجود ہر صاحبِ نصاب شخص پر علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے ۔
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے بھی نفلی قربانی کی جاسکتی ہے، اور اگر گھر میں سے کوئی صاحبِ نصاب اپنی طرف سے قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے بھی قربانی کرتا ہے تو اس پر گھر کے سربراہ کی طرف سے قربانی کرنا لازم نہیں ہے۔
پس اگر اللہ نے وسعت عطا فرمائی ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے الگ قربانی کرے، اور گھر کے مرحوم سربراہ کی جانب سے علیحدہ قربانی کرلے، تاہم افضل و بہتر صورت یہ ہے کہ اپنی واجب قربانی کے علاوہ ایک نفلی قربانی اپنی طرف سے کرکے اس کا ثواب تمام انبیاء علیہم الصلاة والسلام، جمیع صحابہ رضی اللہ عنہ اور خاندان کے جملہ افراد جو وفات پا چکے ہوں، اور جو حیات ہوں، سب کو بخش دے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(وأما) (شرائط الوجوب) : منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة... والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها، فأما ما عدا ذلك من سائمة أو رقيق أو خيل أو متاع لتجارة أو غيرها فإنه يعتد به من يساره."
( كتاب الأضحية، الباب الأول في تفسير الأضحية وركنها وصفتها وشرائطها وحكمها، ٥ / ٢٩٢، ط: دار الفكر)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"(ومنها) أنه تجزئ فيها النيابة فيجوز للإنسان أن يضحي بنفسه و بغيره بإذنه؛ لأنها قربة تتعلق بالمال فتجزئ فيها النيابة كأداء الزكاة وصدقة الفطر؛ ولأن كل أحد لايقدر على مباشرة الذبح بنفسه خصوصًا النساء، فلو لم تجز الاستنابة لأدى إلى الحرج."
( كتاب التضحية، فصل في انواع كيفية الوجوب، ٥ / ٦٧، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی قاضی خان میں ہے:
"ولو ضحی عن میت من مال نفسه بغیر أمر المیت جاز، وله أن یتناول منه ولایلزمه أن یتصدق به؛ لأنها لم تصر ملکًا للمیت؛ بل الذبح حصل علی ملکه، ولهذا لو کان علی الذابح أضحیة سقطت عنه".
(فتاویٰ قاضي خان علی هامش الفتاویٰ الهندیة ۳ / ۳۵۲، ط: رشدیة)
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"الْأَصْلُ: أَنَّ كُلَّ مَنْ أَتَى بِعِبَادَةٍ مَا، لَهُ جَعْلُ ثَوَابِهَا لِغَيْرِهِ وَإِنْ نَوَاهَا عِنْد الْفِعْلِ لِنَفْسِهِ لِظَاهِرِ الْأَدِلَّةِ.
(قَوْلُهُ: بِعِبَادَةٍ مَا) أَيْ سَوَاءٌ كَانَتْ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةً أَوْ ذِكْرًا أَوْ طَوَافًا أَوْ حَجًّا أَوْ عُمْرَةً، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء - عليهم الصلاة والسلام - والشهداء والأولياء والصالحين، وتكفين الموتى، وجميع أنواع البر كما في الهندية ط وقدمنا في الزكاة عن التتارخانية عن المحيط الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء. اهـ.... (قوله لغيره) أي من الأحياء والأموات بحر عن البدائع."
(كتاب الحج، بَابُ الْحَجِّ عَنْ الْغَيْرِ، مَطْلَبٌ فِي إهْدَاءِ ثَوَابِ الْأَعْمَالِ لِلْغَيْرِ، ٢ / ٥٩٥، دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212200807
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن