بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ مکمل درود شریف کے بجائے "صلعم" یا صرف "ص" لکھنا


سوال

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ " صلعم" یا صرف "ص" لکھنا کافی ہے؟ اور اس پر درود کا حکم پورا ہوجاتا ہے؟

جواب

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی کے بعد درود شریف   یا "صلی اللہ علیہ وسلم" مکمل لکھنا اور پڑھنا چاہیے، محض "ص" یا "صلعم" لکھنا کافی نہیں،کیوں کہ اس سے درود شریف کا مقصد حاصل نہیں ہوتا، جو شخص "صلی اللہ علیہ و سلم" کی بجائے صرف "صلعم" یا "ص" لکھتا ہےتو اسے درود  لکھنے کا ثواب نہیں ملے گا، بلکہ  یہ درود و سلام کے ثواب اور فضیلت سے محرومی کا باعث ہے، یہی وجہ ہے کہ محدثین نے فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم نقل کرتے ہوئے صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے کا خوب اہتمام فرمایا ہے، تکرار سے بچنے کے لیے صرف " ص" یا " صلعم" لکھنے پر اکتفاء نہیں کیا ہے، بعض روایات میں صراحت  ملتی ہے کہ جو  شخص اپنی تحریر میں "صلی اللہ علیہ وسلم" لکھتا ہے، فرشتے اس وقت تک اس کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں ، جب تک وہ تحریر باقی رہتی ہے، خطیب بغدادی رحمہ  اللہ نے نقل کیا ہے کہ بعض محدثین کو خواب میں دیکھا گیا، اور ان سے دریافت کیا گیا کہ  ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ بخشش کردی گئی، پوچھاگیا  کہ کس سبب پر بخشش کا پروانہ نصیب ہوا؟ انہوں نے کہا کہ حدیث نقل کرتے ہوئے جو "صلی اللہ علیہ وسلم" تحریر کرتے تھے اس کی برکت سے اللہ تعالی نے بخش دیا۔

حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ نے   محدث امام حمزہ کنانی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی کے بعد "صلی اللہ علیہ" لکھا کرتا تھا، تو خواب میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھ پر مکمل درود کیوں نہیں بھیجتے؟  امام حمزہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے مکمل "صلی اللہ علیہ وسلم" لکھنے کا اہتمام رکھا۔

امام علی ابن مدینی اور عباس بن عبد العظیم العنبری رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے جو بھی حدیث سنی اس میں "صلی اللہ علیہ وسلم" کی تحریر ترک نہیں کی، اور کبھی جلدی ہوتی تو ہم بیاض چھوڑ دیا کرتے تھے، اور بعد میں "صلی اللہ علیہ وسلم" تحریر کرتے تھے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ " صلعم" یا صرف "ص" لکھنا درست نہیں، اور اس  سےدرود کا حکم پورا نہیں ہوتا، لہذا   صرف "ص" یا " صلعم وغیرہ لکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے، اور مکمل صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے کا معمول بنانا چاہیے۔

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

’’سوال:  (  ١٢٢٦ ) اگر کوئی لفظ " صلعم " کو مخفف پڑھے، جس طرح لکھا جاتا ہے، تو کچھ گناہ تو نہیں؟

الجواب: جس طرح لکھا ہے، اس طرح پڑھنا جائز نہیں، پورا صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنا چاہیے، اور  اسی وجہ سے اس طرح مخففا لکھنا بھی نہیں چاہیے، پورا ہی درود شریف لکھنا چاہیے، تخفیفا حروف لکھ دینے سے  فرضیت،  یا استحباب درود شریف کا ساقط نہیں ہوگا۔ فقط واللہ اعلم

سوال: ( ١٢٢٧ ) بعض جگیوں پر جو لفظ محمد آتا ہے، اس پر علامت " ص" بنانا شرعا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب: علامت " ص " کی بنانا نہ  چاہیے،  بلکہ پورا درورد  شریف یعنی صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ لکھنا چاہیے، صرف حرف " ص" لکھنے سے کچھ حاصل نہیں اور یہ اچھا بھی نہیں۔‘‘

( ذکر و دعا کا بیان، ١٧ / ١١٣، ط: مکتبہ دار العلوم دیوبند)

التقريب والتيسير لمعرفة سنن البشير النذير في أصول الحديث  للنوويمیں ہے:

"و ينبغي أن يحافظ على كتابة الصلاة والتسليم على رسول الله صلى الله عليه وسلم، و لا يسأم من تكراره، و من أغفله حرم حظا عظيما، و لا يتقيد فيه بما في الأصل إن كان ناقصا، و هكذا الثناء على الله سبحانه و تعالى: كعز و جل، و سبحانه و تعالى و شبهه، و كذا الترضي و الترحم على الصحابة و العلماء و سائر الأخيار، و إذا جاءت الرواية بشيء منه كانت العناية به أكثر و أشد، و يكره الاقتصار على الصلاة أو التسليم و الرمز إليهما في الكتابة، بل يكتبهما بكمالهما."

( النوع الخامس والعشرون: كتابة الحديث و ضبطه، ص: ٦٨، ط: دار الكتاب العربي، بيروت)

معرفة أنواع علوم الحديث (مقدمة ابن الصلاح)میں ہے:

"التاسع : ينبغي له أن يحافظ على كتبة الصلاة والتسليم على رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم عند ذكره، ولا يسأم من تكرير ذلك عند تكرره، فإن ذلك من أكبر الفوائد التي يتعجلها طلبة الحديث، و كتبته، و من أغفل ذلك حرم حظا عظيما، و قد روينا لأهل ذلك منامات صالحة.

و ما يكتبه من ذلك فهو دعاء يثبته لا كلام يرويه، فلذلك لا يتقيد فيه بالرواية، و لا يقتصر فيه على ما في الأصل.

و هكذا الأمر في الثناء على الله سبحانه عند ذكر اسمه، نحو (عز و جل)، و (تبارك وتعالى) و ما ضاهى ذلك، و إذا وجد شيء من ذلك قد جاءت به الرواية كانت العناية بإثباته، و ضبطه أكثر، و ما وجد في خط أبي عبد الله أحمد بن حنبل رضي الله عنه من إغفال ذلك عند ذكر اسم النبي صلى الله عليه وسلم، فلعل سببه أنه كان يرى التقيد في ذلك بالرواية، و عز عليه اتصالها في ذلك في جميع من فوقه من الرواة.

قال الخطيب أبو بكر: و بلغني أنه كان يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم نطقا لا خطا، قال : و قد خالفه غيره من الأئمة المتقدمين في ذلك.

و روي عن علي بن المديني، و عباس بن عبد العظيم العنبري، قالا: ما تركنا الصلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم في كل حديث سمعناه،و ربما عجلنا فنبيض الكتاب في كل حديث حتى نرجع إليه، والله أعلم ... سمعت حمزة الكناني يقول : كنت أكتب الحديث، و كنت أكتب عند ذكر النبي " صلى الله عليه " و لا أكتب " و سلم "، فرأيت النبي صلى الله عليه وآله و سلم في المنام، فقال لي : ما لك لا تتم الصلاة علي؟ قال: فما كتبت بعد ذلك " صلى الله عليه " إلا كتبت " و سلم "... قلت : و يكره أيضا الاقتصار على قوله "عليه السلام"، والله أعلم بالصواب."

( النوع الخامس والعشرون في كتابة الحديث، وكيفية ضبط الكتاب، وتقييده، ١ / ١٨٨ - ١٩٠، دار الفكر)

الخلاصة في معرفة الحديث لشرف الدين الطيبيمیں ہے: 

"و يحافظ على كتابة الصلاة والتسليم على رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما كتبه، و لا يسأم من تكراره ... و إن لم يكن في الأصل، و من أغفل ذلك حرم حظا عظيما، و يصلي بلسانه على النبي صلى الله عليه وسلم كلما كتبه أيضا، و كذلك الترضي و الترحم على الصحابة و العلماء و يكره الاقتصار على الصلاة دون التسليم و بالعكس.

روى ابن الصلاح عن حمزة الكناني: قال كنت أكتب الحديث و أكتفي بالصلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم في المنام، فقال لي مالك لا تتم الصلاة علي؟ قال: فما كتبت بعد ذلك الصلاة إلا مع التسليم.

و يكره الرمز بالصلاة، والترضي في الكتابة، بل يكتب ذلك بكماله."

( الفصل الثالث في أدب الكاتب، ص: ١٧٥، ط: المكتبة الإسلامية للنشر والتوزيع - الرواد للإعلام والنشر)

شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي  میں ہے:

حدثناه عيسى بن غسان البصري، بها إملاء، قال: حدثنا أبو العباس محمد بن أحمد بن أبي غسان الدقاق، قال: حدثنا عبد الله بن محمد الجمري، قال: حدثنا محمد بن مهدي بن هلال، قال: حدثنا محمد بن يزيد بن خنيس، قال: حدثنا عبد الرحمن بن محمد الثقفي، عن عبد الرحمن بن هرمز، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كتب في كتابه: صلى الله عليه وسلم، لم تزل الملائكة تستغفر يعني له ما دام في كتابه "

حدثني أبو صالح أحمد بن عبد الملك المؤذن، قال: سمعت أبا عبد الله الحسين بن محمد بن أحمد الحلبي، بدمشق، يقول: سمعت أحمد بن عطاء الروذباري، يقول سمعت أبا صالح عبد الله بن صالح الصوفي، يقول " رئي بعض أصحاب الحديث في المنام، فقيل: ما فعل الله عز وجل بك؟ قال: غفر لي. فقيل له: بأي شيء؟ فقال: بصلاتي في كتبي على رسول الله صلى الله عليه وسلم."

( ذكر ما رآه الصالحون في المنام لأصحاب الحديث من الحباء والإكرام، ص: ١١١ - ١١٢، ط: دار إحياء السنة النبوية - أنقرة)

فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي للسخاوي میں ہے:

[كراهة الرمز للصلاة] :

(واجتنب) أيها الكاتب (الرمز لها) أي: للصلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم في خطك، بأن تقتصر منها على حرفين ونحو ذلك، فتكون منقوصة صورة، كما يفعله الكسائي والجهلة من أبناء العجم غالبا وعوام الطلبة، فيكتبون بدلا عن صلى الله عليه وسلم: ص، أو صم، أو صلم، أو صلعم، فذلك لما فيه من نقص الأجر لنقص الكتابة خلاف الأولى، وتصريح المصنف فيه وفيما بعده بالكراهة ليس على بابه.

وقد روى النميري عن أبيه قال: كتب رجل من العلماء نسخة من (الموطأ) وتأنق فيها لكنه حذف منها الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم حيث ما وقع له فيه ذكر، وعوض عنها: ص، وقصد بها بعض الرؤساء ممن يرغب في شراء الدفاتر، وقد أمل أن يرغب له في ثمنه، ودفع الكتاب إليه فحسن موقعه، وأعجب به، وعزم على إجزال صلته، ثم إنه تنبه لفعله ذلك فيه، فصرفه وحرمه وأقصاه، ولم يزل ذلك الرجل محارفا مقترا عليه، لكن وجد بخط الذهبي وبعض الحفاظ كتابتها هكذا صلى الله علم، وربما اقتفيت أثرهم فيه بزيادة لام أخرى قبل الميم مع التلفظ بهما غالبا، والأولى خلافه. ( كتابة الحديث و ضبطه، الحث على كتبة ثناء الله والصلاة على نبيه، ٣ / ٧١ - ٧٢، ط: مكتبة السنة - مصر)

شرح التبصرة والتذكرة = (ألفية العراقي) للعراقي میں ہے:

"ويكره أن يرمز للصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم في الخط بأن يقتصر من ذلك على حرفين، ونحو ذلك، كمن يكتب (صلعم) يشير بذلك إلى الصلاة والتسليم. ويكره حذف واحد من الصلاة والتسليم. والاقتصار على أحدهما."

( كتابة الحديث و ضبطه، ١ / ٤٧٧، ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100760

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں