بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

راشن یا نقدی کی صورت میں زکات ادا کرنے کا حکم


سوال

کیا میں اپنی زکاۃ غریبوں کو ماہانہ فوڈ پیکج  یا نقدرقم کے طور پر دے سکتا ہوں ،مثال کے طور پر میری سال 2022اور 2023 کی زکاۃ میں نے 15 شعبان کو نکالی اور زکاۃ کی کل رقم 10 لاکھ ہے، میں اسے مارچ 2023 سے شروع ہونے والے سال میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں، فروری 2024 تک 4  خاندانوں کے لیے 85000 کی 12 اقساط ہر خاندان کو ماہانہ 25000 دوں گا کیا اس کی شرعی اجازت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ زکاۃ کی  ادائیگی میں اہم شرط تملیک  کی ہے ،، کہ کسی غریب کو زکاۃ کے مال کا مالک بنادیا جائے ،   نیزیہ بھی ضروری ہے کہ زکاۃ واجب ہوجانے کے بعد اس مال پر اگلا سال مکمل ہونے سے پہلے زکاۃ ادا کردی جائے اتنی تاخیر کرنا کہ اس مال پر مزید ایک سال گزر جائے تو اس قدر تاخیر موجبِ گناہ ہے،لہذا صورتِ مسئولہ  میں اگر ہر ایک خاندان (جو مستحق ِ زکاۃ ہو)کو زکاۃ کےمال (کیش )یا اس مال سے خریدےگئے راشن کا سال کے دوران ماہ بماہ مالک بنا دیا جائےتو شرعاً  یہ جائز ہے،البتہ بہتر یہی ہے کہ زکاۃ جتنی جلد ہوسکے ادا کردی جائے اس لیےکہ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے، تاہم  زکوۃ کا کھانا پیکٹ کا کسی اور طریقے سے مستحق کی ملکیت میں دے دے تو درست ہے۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"وأما كونه حوليا أي تم عليه حول فلقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا زكاة في مال حتى يحول عليه الحول»؛ ولأن السبب هو المال النامي لكون الواجب جزء من الفضل لا من رأس المال لقوله تعالى {ويسألونك ماذا ينفقون قل العفو} [البقرة: 219] أي الفضل، والنمو إنما يتحقق في الحول غالبا أما المواشي فظاهر، وكذا أموال التجارة لاختلاف الأسعار فيه غالبا عند اختلاف الفصول فأقيم السبب الظاهر، وهو الحول مقام المسبب، وهو النمو."

(كتاب الزكاة، فصل في شروط وجوبها، ج:1، ص:253، ط:دار الكتاب الاسلامي ، بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكذلك إذا اشترى بالزكاة طعاما فأطعم الفقراء غداء وعشاء ولم يدفع عين الطعام إليهم لا يجوز لعدم التمليك."

(كتاب الزكاة،فصل في ركن الزكاة، ج:2، ص:39، ط: دار الكتب العلمية)

وفيه ايضاً:

"وأما كيفية فرضيتها فقد اختلف فيها ذكر الكرخي أنها على الفور، وذكر في المنتقى ما يدل عليه فإنه قال: " إذا لم يؤد الزكاة حتى مضى حولان فقد أساء وأثم ولم يحل له ما صنع وعليه زكاة حول واحد " وعن محمد أن من لم يؤد الزكاة لم تقبل شهادته وروي عنه أن التأخير لا يجوز وهذا نص على الفور."

(كتاب الزكاة، فصل كيفية فرضية الزكاة، ج:2، ص:77، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

"لو أطعم يتيما بنيتها لا يجزئه لعدم التمليك إلا إذا دفع له الطعام كالكسوة."

(كتاب الزكاة،باب مصرف الزكاة،بناء المسجد وتكفين ميت وقضاء دينه وشراء قن من الزكاة، ج:2، ص:261، ط: دار الكتاب الاسلامي)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"(ومنها حولان الحول على المال) العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية."

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج:1، ص:170، ط: دار الفكر بيروت)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"وأخرج بالتمليك الإباحة فلا تكفي فيها فلو ‌أطعم يتيما ناويا به الزكاة لا تجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض."

(كتاب الزكاة، ص:713، ط: دار الكتب العلمية بيروت )

فتاوی شامی میں ہے:

"خرج الإباحة، فلو ‌أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض.....(قوله: إلا إذا دفع إليه المطعوم) لأنه بالدفع إليه بنية الزكاة يملكه فيصير آكلا من ملكه، بخلاف ما إذا أطعمهمعه."

(كتاب الزكاة،ج:2، ص:257، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101449

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں