بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رش کی وجہ جوتوں یا چپلوں کے گندگی کا کپڑوں پر لگنے کا حکم


سوال

سفر کے دوران رش کی وجہ سے لوگوں کے چپل جوتے وغیرہ کی گندگی کپڑے پر لگنے سے نماز ہو گی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  رش کی  وجہ سے کپڑوں  پر  جوتوں یا چپلوں کی  گندگی کے بارے میں اگر یقینی طور پر یہ معلوم ہو کہ اس میں ناپاکی لگی ہوئی ہے یا اس بات کا غالب گمان ہو اور ناپاکی کی مقدار بھی زیادہ ہو، تو نماز کے لیے اس کا پاک کرنا ضروری ہے ،اور اگرنجاست لگنے کا یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ   جوتوں یا چپلوں کی مٹی نجس ہے یا نہیں،  یا یقین ہے لیکن اس کی مقداراتنی  ہے جو شریعت میں معاف ہے،تو اس صورت میں ان کپڑوں میں نماز پڑھنا درست ہوگا۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وهي نوعان (الأول) المغلظة وعفي منها قدر الدرهم واختلفت الروايات فيه والصحيح أن يعتبر بالوزن في النجاسة المتجسدة وهو أن يكون وزنه قدر الدرهم الكبير المثقال وبالمساحة في غيرها وهو قدر عرض الكف . هكذا في التبيين والكافي وأكثر الفتاوى والمثقال وزنه عشرون قيراطا وعن شمس الأئمة يعتبر في كل زمان بدرهمه والصحيح الأول. هكذا في السراج الوهاج ناقلا."

(كتاب الطهارة، الفصل الثاني في الأعيان النجسة، ج:1، ص:45، ط: رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وعفا) الشارع (عن قدر درهم) وإن كره تحريما فيجب غسله وما دونه تنزيها فيسن وفوقه مبطل (وهو مثقال) عشرون قيراطا (في) نجس (كثيف) له جرم (وعرض مقعر الكف) وهو داخل مفاصل أصابع اليد (في رقيق من مغلظة كعذرة) آدمي وكذا كل ما خرج منه موجبا لوضوء أو غسل مغلظ."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:1، ص:316، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(وعفي دون ربع) جميع بدن و (ثوب) ولو كبيرا هو المختار، ذكره الحلبي ورجحه في النهر على التقديربربع المصاب كيد وكم وإن قال في الحقائق وعليه الفتوى (من) نجاسة (مخففة كبول مأكول) إلخ."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:1، ص:322،321، ط: سعید)

البحرالرائق میں ہے:

"وأراد بالدرهم المثقال الذي وزنه عشرون قيراطا وعن شمس الأئمة أنه يعتبر في كل زمان درهمه والأول هو الصحيح، كذا في السراج الوهاج وأفاد بقوله كعرض الكف أن المعتبر بسط الدرهم من حيث المساحة وهو قدر عرض الكف وصححه في الهداية وغيرها وقيل من حيث الوزن والمصنف في كافيه ووفق الهندواني بينهما بأن رواية المساحة في الرقيق كالبول ورواية الوزن في الثخين واختار هذا التوفيق كثير من المشايخ وفي البدائع وهو المختار عند مشايخ ما وراء النهر وصححه الشارح الزيلعي وصاحب المجتبى وأقره عليه في فتح القدير؛ لأن إعمال الروايتين إذا أمكن أولى خصوصا مع مناسبة هذا التوزيع."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:1، ص:240، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100228

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں