بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض ادا کرنے کے لئے بینک سے قرضہ لینے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام درجِ ذیل مسئلے کے بارے میں:

میں نے اپنی زمین فروخت کی تھی چاچو لوگوں کو، انہوں نے ہمیں بیعانے کے طور پر بیس لاکھ روپے رقم دی تھی، اور باقی رقم ادا کرنے کے لئے چھ مہینے کا وقت لیا، لیکن چھ مہینے کے بعد بھی وہ رقم ادا نہیں کر رہے، اور ہم سے تقاضہ کر رہے ہیں کہ آپ لوگ اپنی زمین واپس لے لیں، اور ہمارے پیسے واپس کرلیں، اب میرے پاس اتنی رقم موجود نہیں ہےتو کیا میں اسلامک بینک یا کسی دوسری بینک سے قرضہ لوں اور رقم ادا کروں تو شرعاً درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی بھی بینک سے سودی قرضہ لینا حرام اور ناجائز ہے، مروّجہ اسلامک بینکنگ اور عام سودی روایتی بینکوں کے طریقہ کار اور نظام میں کوئی خاص فرق نہیں، صرف نام  اور اصطلاحات کا فرق ہے، لہذا سائل کسی بھی بینک سے سودی قرض لینے سے اجتناب کرے، زیر نظر مسئلہ میں اگر دونوں فریقین زمین کی بیع کرکے بھی اقالہ پر راضی ہوں اور فی الوقت سائل کے پاس مشتری (خریدار) کی رقم وپس لوٹانے کا انتظام نہ ہو تو رقم کے انتظام تک انتظار کرلیاجائے، یا اقالہ کر کے خریدار سے رقم لوٹانے کی مہلت لے لے۔

سود کا لین دین شرعاً ا س قدر قبیح اور ناپسندیدہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے:

"﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ  وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ [البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]

ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے۔ اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن".  

(5/166، مطلب کل قرض جر نفعا، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں