بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رقم انویسٹ کرکے فکس نفع لینا


سوال

میرا بیڈشیٹ بنانے کا کارخانہ ہے، میں ایک شخص سے انویسٹ لیتا ہوں دس لاکھ روپے، اب وہ دس لاکھ روپے میں مختلف خام مال کی خریداری میں، اسی طرح کاریگروں کو دیہاڑی دینے میں لگاتا ہوں اور جب بیڈشیٹ تیار ہوتی ہیں تو میں انویسٹر کا ہر بیڈشیٹ پر نفع فکس کر دوں، مثلا :مجھے بیڈشیٹ 500 کی پڑی تو میں 50 روپے انویسٹر کے لگا کر 550 کوسٹ لگاؤں، اس طرح تین مہینہ میں جتنی بیڈشیٹ تیار ہوں اس کا نفع 50 روپے لگا کر اس کو دے دوں پھر تین مہینہ بعد اس کے دس لاکھ واپس کر دوں، سوال یہ ہے کہ یہ صورت جائز ہوگی؟ اگر نہیں تو جائز صورت کی طرف راہنمائی فرما دیں۔

جواب

واضح رہے کہ شرکت (مثلاً دو افراد کا مشترکہ طور پر کاروبار کرنا ) یا مضاربت(ایک شخص کی محنت اور دوسرے کا سرمایہ) میں بنیادی طور پر یہ ضروری ہے کہ نفع کی تقسیم حاصل شدہ نفع کے فیصد کی صورت میں ہو، رقم دے کر  اس پر ماہانہ فکس/مقرر منافع لینا شرعاً ناجائز  ہے، لہذا صورت ِ مسئولہ میں انویسٹر کا  ہر  بیڈ شیٹ  پر 50روپے  فکس نفع  لینا شرعاً جائز نہیں ہے۔

  کاروبار کی جائز صورت یہ ہے کہ  انوسٹر  دس  لاکھ   روپے دے کر  عقد کے وقت  دونوں فریق باہمی رضامندی سے یہ طے کرلیں کہ اس رقم سے جو بھی نفع ہوگا، اس کا اتنا فیصد  انوسٹر کا ہوگا اور اتنا فیصد   سائل کا ہوگا۔

نیز  تین مہینہ بعد متعینہ طور پر دس  لاکھ روپے واپس کرنے کی ضمانت دینا بھی شرعاً درست نہیں ہے، کیوں کہ شرکت یا مضاربت میں دی ہوئی رقم امانت ہوگی، اس لیے معاملہ کے  جائز ہونے کی صورت یہ ہوگی کہ عقد کے وقت طے کیا جائے کہ معاہدے کی مدت پوری ہونے (مثلاً  تین مہینہ  کے اختتام) پر حساب کیا جائے گا، اگر اصل سرمایہ اور اس کے ساتھ نفع بھی ہو تو دونوں کا سرمایہ انہیں مکمل مل جائے گا اور نفع  کے فیصد کے اعتبار سے تقسیم ہوگی۔ اور اگر  مدت کے اختتام پر نفع ہی نہ ہو، صرف سرمایہ بچے تو بغیر نفع کے صرف سرمایہ واپس کیا جائے گا۔ اور  خدانخواستہ معاہدے کے اختتام پر کوئی نفع بھی نہیں ہوا، اور   سائل  کی کسی غلطی یا کوتاہی کے بغیر سرمائے کا بھی نقصان ہوگیا تو نقصان دونوں کو سرمائے کے تناسب سے برداشت کرنا ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ عقد کے وقت سرمائے کے تحفظ کی یقین دہانی جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے مذکورہ  معاملہ قرض کا ہوجائے گا، گویا انوسٹر سائل  کو سال کی مدت کے لیے رقم قرض دے رہاہے جو سال کے اختتام پر پوری رقم واپس لے گا، مزید برآں وہ اس سے نفع بھی وصول کرے گا، جو کہ صراحتاً سود ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"أما تفسيرها شرعا فهي عبارة عن عقد على الشركة في الربح بمال من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر۔۔۔۔۔(ومنها) أن يكون نصيب المضارب من الربح معلوما على وجه لا تنقطع به الشركة في الربح كذا في المحيط. فإن قال على أن لك من الربح مائة درهم أو شرط مع النصف أو الثلث عشرة دراهم لا تصح المضاربة كذا في محيط السرخسي."

(کتاب المضاربۃ،الباب الاول فی تفسیر المضاربۃ،ج:4،ص:287،دارالفکر)

در مختار میں ہے :

"(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت."

(کتاب المضاربۃ،ج:5،ص:648،سعید)

وفيه أيضا :

"(وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين  (وإن قسم الربح وبقيت المضاربة ثم هلك المال أو بعضه ترادا الربح ليأخذ المالك رأس المال وما فضل بينهما، وإن نقص لم يضمن) لما مر."

(کتاب المضاربۃ،ج:5،ص:656،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں