بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج فرض ہونے کے بعد رقم کہیں اور خرچ کرنا


سوال

ایک بندے کے پاس اتنے پیسے تھے کہ  وہ حج کر سکتا تھا ۔ مگر کچھ ضرورت مند ایسے  آگئے،  جن کی امداد ضروری تھی ۔ وہ تمام پیسے ان کی امداد میں خرچ  ہو  گئے۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے غلط کیا۔  پہلے حج کرتے،  لوگوں کی امداد ضروری نہیں تھی،  حج ضروری تھا ۔ تفصیل سے جواب چاہیے!

جواب

اگر کسی شخص کی ملکیت میں اتنی رقم ہو جس سے اس پر حج فرض ہو جائے، یعنی جن دنوں میں حج کے قافلے جاتے ہیں یا حج کی درخواستیں وصول کی جاتی ہیں ان دنوں میں یا شوال، ذوالقعدہ اور ذو الحجہ کی ابتدائی ایام میں کسی کے پاس اتنی رقم ہو کہ سفرِ حج کی  آمد و رفت کے اخراجات، وہاں رہائش کے  انتظام اور کھانے پینے کے خرچے  اور دورانِ سفر اہل و عیال کے نفقے وغیرہ کے لیے کافی ہو، اس پر لازم ہے کہ وہ حج ادا کر لے، اس میں بلا وجہ تاخیر نہ کرے،  لیکن اگر  وہ رقم کسی دوسرے مصرف میں خرچ ہو جائے تو ایسے آدمی پر حج بدستور فرض رہتا ہے،  حج کا ذمہ ساقط نہیں ہوگا، بلکہ حج کی ادائیگی اس کے ذمہ میں باقی رہے گی۔

اگر مرنے سے پہلے حج کرنے کے اسباب بن جائیں تو حج ادا کرلے،  ورنہ حجِ بدل کی وصیت کرنا ضروری ہوگا، اوراسباب کے باوجود  حج نہ کرنے کی وجہ سے  توبہ واستغفار کرنا بھی ضروری ہوگا، پھر اگر اس کے ترکہ میں مال ہوتو ورثاء پر ایک تہائی مال میں سے حج ِبدل کرانا لازم ہوگا، اور اگر ترکہ میں مال نہ ہو  تو ورثاء پر حج بدل کرانا لازم تو نہیں ہوگا، البتہ اگر خوشی سے حج بدل کرادیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1/ 216):

"(وأما فرضيته) فالحج فريضة محكمة ثبتت فرضيتها بدلائل مقطوعة حتى يكفر جاحدها، وأن لايجب في العمر إلا مرة، كذا في محيط السرخسي، وهو فرض على الفور، وهو الأصح فلايباح له التأخير بعد الإمكان إلى العام الثاني، كذا في خزانة المفتين. فإذا أخره، وأدى بعد ذلك وقع أداء، كذا في البحر الرائق. وعند محمد - رحمه الله تعالى - يجب على التراخي والتعجيل أفضل، كذا في الخلاصة.

والخلاف فيما إذا كان غالب ظنه السلامة أما إذا كان غالب ظنه الموت أما بسبب الهرم أو المرض فإنه يتضيق عليه الوجوب إجماعا كذا في الجوهرة النيرة وثمرة الخلاف تظهر في حق المأثم حتى يفسق وترد شهادته عند من يقول على الفور، ولو حج في آخر عمره فليس عليه الإثم بالإجماع، ولو مات، ولم يحج أثم بالإجماع، كذا في التبيين ...بخلاف ما لو ملكه مسلمًا فلم يحج حتى افتقر حيث يتقرر الحج في ذمته دينًا عليه، كذا في فتح القدير."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200601

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں