کیاRapid Neo.websiteپر کام کرنا جائز ہے؟اس ویب سائٹ کا طریقہ کا ریہ ہوتا ہے کہ اس میں پہلے لاگ ان کرنا ہے، لاگ ان کرنےکے بعداس میں ایک فری آپشن موجود ہوتا ہے جو روزانہ کے حساب سے 12 روپے فری دیتے ہیں، 360 دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے،نیز اس میں موجود مختلف آپشنز مثلا اگر آپ 1000 ہزار روپے انویسٹمنٹ کریں گے ، تو آپ کو 52 روپے منافع روزانہ کے حساب سے ملےگا، اسی طرح 2500 روپے انویسٹمنٹ کریں گے تو 130روپے منافع روزانہ کے حساب سے ملے گا، اسی طرح 5000 ہزار روپے انویسٹمنٹ کریں گے ،تو 265 روپے منافع روزانہ کے حساب سے ملے گا، الغرض جتنی انویسٹمنٹ کریں گے اسی کے حساب نفع ملے گا، اسی طرح کوئی ممبر اگر آپ کے لنک سے اکاؤنٹ بنائے گا ، تو اس کا کمیشن بھی آپ کو ملے گا۔تو کیا ایسی ویب سائٹ پر کام کرنا جائز ہےیانہیں؟
وضاحت: اس ویب سائٹ پر کسٹمر کو کوئی کام کرنا نہیں پڑتا، صرف انویسٹمنٹ کرنی پڑتی ہے، نیز جس ویب سائٹ(Rapid Neo) کوپیسے بطورانویسٹمنٹ دیے جارہے ہیں، اس کا بھی کوئی کام نہیں ہوتا۔
صورتِ مسئولہ میں Rapid Neo.website کا مذکورہ طریقہ قرض پر نفع دینا ہے، جو کہ سود ہے ، قرآن و حدیث میں سودی لین دین کی سخت ممانعت آئی ہے ،بلکہ سود خور کو اللہ اور کے رسول سے جنگ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے ، نیز اس طرح کی ویپ سائٹ میں فراڈ اور دھوکہ کی بنیاد پر اصل سرمایہ ڈوبنے کا بھی امکان ہے،جو کہ سود ہونےکے ساتھ ساتھ قمار بھی ہے ۔
نیز مذکورہ ویب سائٹ کا کام چونکہ قرض پر نفع دینا ہے جوکہ سود کے حکم میں ہے لہذ ااس کا ممبر بنانا اور اس کی اجرت لینا بھی شرعا ناجائز اور حرام ہے۔
قرآنِ مجید میں ہے:
ٱلَّذِينَ يَأۡكُلُونَ ٱلرِّبَوٰاْ لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ ٱلَّذِي يَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّيۡطَٰنُ مِنَ ٱلۡمَسِّۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمۡ قَالُوٓاْ إِنَّمَا ٱلۡبَيۡعُ مِثۡلُ ٱلرِّبَوٰاْۗ وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰاْۚ فَمَن جَآءَهُۥ مَوۡعِظَةٞ مِّن رَّبِّهِۦ فَٱنتَهَىٰ فَلَهُۥ مَا سَلَفَ وَأَمۡرُهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِۖ وَمَنۡ عَادَ فَأُوْلَٰٓئِكَ أَصۡحَٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ (سورۃ البقرۃ، رقم الآیة:275)
ترجمہ: ”اور جو لوگ سود کھاتے ہیں نہیں کھڑے ہوں گے (قیامت میں قبروں سے) مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شحص جس کو شیطان خبطی بنا دے لپٹ کر (یعنی حیران و مدہوش)، یہ سزا اس لیے ہوگی کہ ان لوگوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو مثل سود کے ہے، حال آں کہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے۔ پھر جس شخص کو اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ پہلے (لینا) ہوچکا ہے وہ اسی کا رہا اور (باطنی) معاملہ اس کا خدا کے حوالہ رہا اور جو شخص پھر عود کرے تو یہ لوگ دوزخ میں جاویں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“(ازبیان القرآن)
قرآن کریم میں ہے:
" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ " [سورة المائدة :90]
" إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ"(سورة المائدة:91)
” ترجمہ :اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو،
شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کردے،اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے،سو اب بھی باز آؤ گے۔“(از بیان القرآن)
صحیح مسلم میں ہے:
106 - (1598) حدثنا محمد بن الصباح، وزهير بن حرب، وعثمان بن أبي شيبة ، قالوا: حدثنا هشيم ، أخبرنا أبو الزبير ، عن جابر قال: « لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله، وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء ».."
( باب الربا، باب لعن آکل الربا وموکله، ج:3، ص:1219، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)
’’ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ہے سود کھانے والےپر، سود کھلانے والے پر،سودی معاملہ کے لکھنےوالے پراورسودی معاملہ میں گواہ بننےوالوں پراور ارشاد فرمایا کہ یہ سب(سود کے گناہ میں)برابر ہیں۔‘‘
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
" (وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض جر نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض."
(كتاب القرض، فصل في شرائط ركن القرض، ج:7، ص:395، ط:دار الكتب العلمية)
البحر الرائق میں ہے:
" الميسر اسم لكل قمار."
(کتاب الشهادات، باب من تقبل شهادته ومن لا تقبل، ج:7، ص:91، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."
(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:9، ص:625، ط:رشیدیه)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603102215
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن