بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

روضہ اطہر پر گنبد کی وجہ / کیپٹن عثمانی اور ان کے متبعین کا حکم


سوال

1۔۔  جب قبروں پر گنبد بنانا ناجائز ہے تو گنبد خضریٰ کا کیا جواز ہے، جب کہ یہ کئی صدیوں بعد بنا؟

2۔۔  کیا وجہ  ہے  کہ ہمارے علماء نے کیپٹن عثمانی کے فتنے کو سنجیدہ نہیں لیا،  جب کہ وہ مرزایوں کی طرح تمام امت کے  بزرگان دین کی تکفیر کرتے ہیں اور جو عثمانی کو نہ  مانے اسے کافر کہتے ہیں،  جو کتابیں ان کے رد میں لکھی تھی  "اسلام کے نام پر ہوی پرستی"  وغیرہ اور جو بنوری ٹاون سے فتوی تھا ان کے متعلق،  اس کا جواب انھوں نے  "اسلام یا مسلک پرستی"  نیو ایڈیشن میں 10 سال پہلے دے دیا ہے،  جب کہ ہماری طرف سے خاموشی ہے، کوئی جواب نہیں دیا گیا، ازراہ کرم توجہ دیں اور عوام کے ایمان کی حفاظت کریں،

بنوری ٹاؤں کا فتوی بھیج دیں،جو پہلے ان کے بارے میں فتوی دیا تھا،  جس کا انھوں نے جواب دیا ہے۔ مجھے اسکین کرکے بھیج دیجیے۔

جواب

1۔۔ صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ سرورِ عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے اور اُن پر تعمیر کرنے سے ممانعت فرمائی ہے، اس لیے کسی بھی مسلمان کی قبر کو پختہ بنانا ہرگز جائز نہیں ہے، خواہ اولیاء اللہ اور بزرگانِ دین کی قبریں کیوں نہ ہوں، بلکہ اولیاء اللہ کے معاملے میں احکامِ شریعت کا زیادہ  خیال رکھنا چاہیے، کیوں کہ ان حضرات کی پوری زندگیاں سنتِ  رسول اللہ  ﷺ کی اشاعت اور شریعت کی حفاظت میں گزری ہیں، اور یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ سرورِ  عالم حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک بھی کچی ہی ہے،  پختہ نہیں ہے، البتہ  چوں کہ خود  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ نبی کا مدفن وہی جگہ بنتی ہے  جہاں وہ دنیا سے پردہ فرماتے ہیں، اس لیے اس حکم کی تعمیل میں آپ کا روضۂ مبارکہ حجرۂ عائشہ میں بنایا گیا، جو پہلے ہی تعمیر شدہ تھا، گویا کہ آپ کی قبرِ اطہر پر دفن کے بعد کوئی تعمیر نہیں ہوئی، بلکہ پہلے سے بنی ہوئی تعمیر  میں حسبِ حکمِ نبوی تدفین ہوئی ہے، اور  آج روضۂ  اقدس علی صاحبہا الصلوۃ والسلام پر جو شان دار عمارت اور دیدہ زیب سبز  گنبد بنا ہوا ہے، یہ اسی سابقہ تعمیر کی تجدید کی حیثیت رکھتاہے، بہر حال اپنے ہی گھر میں تدفین یہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت  ہے۔

جب حضور ﷺ  کی تدفین کمرہ میں مقصود تھی ؛ کیوں کہ وفات کا کمرہ تدفین کا مکان ہے اور  یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا ، اور جب تدفین کمرہ میں مقصود تھی تو  عمارت کی بقا بھی مقصود ہو گی اور  اس  کی  بقا  کا طریقہ عمارت کی پختگی ہے ، اس  لیے پختہ مکان آپ کے  لیے منع نہیں ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے  ساتھ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی تدفین عمارت میں تبعًا ہے کسی اور  کی قبر پر گنبد یا پختہ تعمیر کر نا صحیح  نہیں۔

ہاں گنبد بنانا بعد والے خلفاء کا ذاتی فعل ہے ،  جن کتابوں میں اس کا  جواز لکھا ہے وہ احادیث کے خلاف ہے۔ اس  لیے علماء نے اس کی تردید فرمائی ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے فتاوی دارالعلوم زکریا ، 1/192، ط:زمزم پبلشر،  کا مطالعہ کیجیے۔)

2۔۔  کیپٹن مسعود عثمانی  اور ان کی جماعت  فرقہ باطلہ اور ضالہ میں سے ہیں، یہ لوگ کم فہم یا بد فہم ہیں، اور اہلِ  سنت والجماعت سے خارج ہیں، اس فتنے کابھی اہل علم نے بھرپور طریقہ سے رد کیا ہے، ہمارے جامعہ سے متعدد سوالات کے جوابات میں متعدد فتاوی جاری ہوئے ہیں،  اور اصولی طور پر ان  کے غلط نظریات کا جواب دیا جاچکا ہے، اور بعد میں یہ فتنہ اپنی موت آپ ہی مرنے لگا، اس لیے بحث ومباحثہ کے ذریعے  اس کا دوبارہ احیاء نہیں کیا گیا۔  (تفصیل کے لیے  تجلیات صفدر (5/613) میں "جماعت المسلمین کی حقیقت" نامی رسالہ ملاحظہ فرمائیں)۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں