بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رننگ کرنے کی غرض سے نمازِ باجماعت چھوڑنے کاحکم


سوال

 میں نے ایک جگہ اپلائی کیا ہے وزن کم کرنے کےلیے صبح 45 یا50 منٹ رننگ کرنی ہے،اور میرا وزن بھی زیادہ ہے ، اگر صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ کر جاؤں تو دیر ہو جاتی ہے اور لوگ کچے میں آ رہے ہوتے ہیں اور ان کے سامنے رننگ کرنے سے مجھے شرم آتی ہے؛ کیونکہ یہاں ورزش کرنے کا ماحول نہیں ہے، اگر لوگوں کے سامنے ورزش کروں تو وہ باتیں اور مذاق کرتے ہیں ،تو کیا میں صبح کی نماز جماعت سے 30 منٹ پہلے پڑھ کر جا سکتا ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنتِ مؤکدہ یعنی واجب کے درجےمیں ہے،جسے بغیرشرعی عذرکے ترک کردینے کامعمول بناناجائز نہیں، بلکہ آپ علیہ السلام کی شفاعت سے محرومی کا ذریعہ ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کےلیے مذکورہ عذر(رننگ کرنے)کی بناءپر نمازِباجماعت ترک کرنا جائز نہیں ہے، لہذا سائل کو چاہیے اپنے تمام مشاغل سے نمازِ باجماعت کو مقدم رکھیں اور رننگ وغیرہ کےلیے کسی دوسری مناسب جگہ یا وقت کا انتظام فرمائیں۔

الدرالمختارمیں ہے:

"(والجماعة سنة مؤكدة للرجال) قال الزاهدي: أرادوا بالتأكيد الوجوب إلا في جمعة وعيد فشرط۔۔۔(وأقلها اثنان) واحد مع الإمام ولو مميزا أو ملكا۔۔۔(وقيل واجبة وعليه العامة) أي عامة مشايخنا وبه جزم في التحفة وغيرها. قال في البحر: وهو الراجح عند أهل المذهب (فتسن أو تجب) ثمرته تظهر في الإثم بتركها مرة (على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج)."

وفی الردتحتہ:

"(قوله قال الزاهدي إلخ) توفيق بين القول بالسنية والقول بالوجوب الآتي، وبيان أن المراد بهما واحد أخذا من استدلالهم بالأخبار الواردة بالوعيد الشديد بترك الجماعة. وفي النهر عن المفيد: الجماعة واجبة، وسنة لوجوبها بالسنة اهـ وهذا كجوابهم عن رواية سنية الوتر بأن وجوبها ثبت بالسنة قال في النهر: إلا أن هذا يقتضي الاتفاق على أن تركها مرة بلا عذر يوجب إثما مع أنه قول العراقيين. والخراسانيون ن على أنه يأثم إذا اعتاد الترك كما في القنية. اهـ.وقال في شرح المنية: والأحكام تدل على الوجوب، من أن تاركها بلا عذر يعزر وترد شهادته، ويأثم الجيران بالسكوت عنه، وقد يوفق بأن ذلك مقيد بالمداومة على الترك كما هو ظاهر قوله - صلى الله عليه وسلم - «لا يشهدون الصلاة» وفي الحديث الآخر «يصلون في بيوتهم» كما يعطيه ظاهر إسناد المضارع نحو بنو فلان يأكلون البر: أي عادتهم، فالواجب الحضور أحيانا، والسنة المؤكدة التي تقرب منه المواظبة. اهـ. ويرد عليه ما مر عن النهر، إلا أن يجاب بأن قول العراقيين يأثم بتركها مرة مبني على القول بأنها فرض عين عند بعض مشايخنا كما نقله الزيلعي وغيره، أو على القول بأنها فرض كفاية كما نقله في القنية عن الطحاوي والكرخي وجماعة، فإذا تركها الكل مرة بلا عذر أثموا فتأمل.''

(کتاب الصلاۃ،باب الامامۃ،ج:1،ص:552/ 553/ 554،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101136

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں