بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رنگ والے کا دکان پر گاہک لانے کے بدلے کاریگر کو کمیشن دینے کا حکم


سوال

میری رنگ کی دوکان ہے، میرے پاس کاریگر آکر کہتے ہیں کہ میں آپ کے پاس گاہک لاؤں گا تو جب آپ گاہک پر رنگ کا کوئی گیلن بیچیں گے تو اس گیلن پر آپ نے میرے لیے بھی پیسے رکھنے ہیں، مثال کے طور پر 1 گیلن کمپنی 800 روپے کا دوکاندار کو بیچتی ہے، دوکاندار 200 روپے منافع کے ساتھ 1000 روپے کا بیچتا ہے، جب کاریگر گاہک کو دوکاندار کے پاس لائے تو دوکاندار وہی گیلن 1300 روپےکا گاہک کوبیچتا ہے، دوکاندار یہ 300 روپے کاریگر کو ادا کرتا ہے کہ آپ نے میرے لیے گاہک لایا تھا، کیا اس طرح کرنا درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کاریگر کے ساتھ پہلے سے معاہدہ کرلیں کہ کاریگر کے گاہک کو دکان پر لانے اور اس گاہک کے رنگ کا گیلن خریدنے کی صورت میں آپ کاریگر کو فی گیلن تین سو روپے کمیشن ادا کریں گے تو ایسا معاہدہ کرنا شرعًا جائز ہے، اور کاریگر کی طرف سے لائے جانے والے گاہک کو رنگ کا گیلن کمیشن کا خرچہ نکالنے کے لیے عام قیمت سے کچھ زیادہ پر بیچنے کی بھی گنجائش ہے؛ کیوں کہ رنگ کا گیلن آپ کی ملکیت ہے؛ اس لیے آپ کو اختیار ہے کہ اپنی مملوکہ چیز جس مناسب قیمت پر چاہیں بیچ سکتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ کاریگر کا دکان دار کے پاس خریدار  لانے کے عوض کمیشن کا مطالبہ کرنا درست ہے بشرطیکہ کمیشن پہلے سے متعین کرکے طے کرلیا جائے   اور دکان دار کا کمیشن کی ادائیگی کو مدنظر رکھتے ہوئے گاہک سے معمول سے کچھ زیادہ قیمت طے کرنا بھی جائز ہے اور گاہک کو اس معاملہ سے آگاہ کرنا بھی ضروری نہیں ہے۔

البتہ اگر کاریگر  خریدار کو دکان پر نہ لائے، بلکہ خود بطور وکیل اس کے لیے دکان دار سے رنگ کا گیلن خریدے تو چوں کہ اس صورت میں اس کی حیثیت بروکر کی نہیں ہے، بلکہ عاقد (معاملہ کرنے والے) کی ہے؛ لہٰذا اس کے لیے دکان دار سے کمیشن مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، البتہ اس صورت میں وہ خریدار کا وکیل ہونے کی وجہ سے خریدار سے اجرت وکالت کا مطالبہ کرسکتا ہے بشرطیکہ اجرت وکالت پہلے سے طے کر لی گئی ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63):

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجاً ينسج له ثياباً في كل سنة".

وفیه أیضاً:

’’وَأَمَّا أُجْرَةُ السِّمْسَارِ وَالدَّلَّالِ فَقَالَ الشَّارِحُ الزَّيْلَعِيُّ: إنْ كَانَتْ مَشْرُوطَةً فِي الْعَقْدِ تُضَمُّ‘‘. (ه/ ١٣٦)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200300

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں