بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رنگ لگا ہونے کی صورت میں وضو کا حکم


سوال

 جو لوگ ایسے رنگ کا کام کرتے ہیں کہ جسم پر لگنے کے بعد آسانی سے نہیں چھوٹتا تو کیا ان کا اسی رنگ کے ساتھ وضو درست ہو گا یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر رنگ یا پینٹ وغیرہ  تہہ دار ہے اور اس کے لگے ہونے کی صورت میں پانی  کھال تک نہیں پہنچ سکتا  توایسے رنگ کے لگے ہونے کی حالت میں وضو درست نہیں ہوگا، اور اگر تہہ دار نہیں ہے محض رنگ ہے تو وضو ہوجائے گا۔

 البتہ اگر جسم پر رنگ لگ جائے جس کی وجہ سے پانی کھال تک نہیں پہنچتا ہو، لیکن وہ اتنا پکا ہو کہ آسانی سے نہ اترتاہو اور   پوری کوشش کے بعد بھی مکمل طور پر نہ صاف نہ ہوتا ہو اور زیادہ کوشش کے نتیجے میں کھال اترنے یا زخم بننے کا اندیشہ ہو تو  جہاں تک ہوسکے رگڑ کر دھولیا جائے، اگر  پھر بھی  رنگ نہیں اترے تو  وضو اور غسل ہوجائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 154):

"(و) لا يمنع (ما على ظفر صباغ و) لا (طعام بين أسنانه) أو في سنه المجوف به يفتى. وقيل: إن صلبًا منع، وهو الأصح.

(قوله: به يفتى) صرح به في الخلاصة وقال: لأن الماء شيء لطيف يصل تحته غالبا اهـ ويرد عليه ما قدمناه آنفا ومفاده عدم الجواز إذا علم أنه لم يصل الماء تحته، قال في الحلية وهو أثبت.

(قوله: إن صلبًا) بضم الصاد المهملة وسكون اللام وهو الشديد حلية: أي إن كان ممضوغا مضغا متأكدا، بحيث تداخلت أجزاؤه وصار له لزوجة وعلاكة كالعجين شرح المنية.

(قوله: وهو الأصح) صرح به في شرح المنية وقال لامتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورة والحرج ا هـ. ولا يخفى أن هذا التصحيح لا ينافي ما قبله فافهم."

الفتاوى الهندية (1/ 42)

'' وإن كانت شيئاً لا يزول أثره إلا بمشقة بأن يحتاج في إزالته إلى شيء آخر سوى الماء كالصابون لا يكلف بإزالته. هكذا في التبيين . وكذا لا يكلف بالماء المغلي بالنار. هكذا في السراج الوهاج. وعلى هذا قالوا: لو صبغ ثوبه أو يده بصبغ أو حناء نجسين فغسل إلى أن صفا الماء يطهر مع قيام اللون. كذا في فتح القدير''.

وفیه أيضًا (1/ 4):

"في فتاوى ما وراء النهر: إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرة أو لزق بأصل ظفره طين يابس أو رطب لم يجز وإن تلطخ يده بخمير أو حناء جاز.

وفي الجامع الصغير: سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ؟ قال: كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم إذ لايستطاع الامتناع عنه إلا بحرج، والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي، كذا في الذخيرة. وكذا الخباز إذا كان وافر الأظفار، كذا في الزاهدي ناقلاً عن الجامع الأصغر.

والخضاب إذا تجسد ويبس يمنع تمام الوضوء والغسل، كذا في السراج الوهاج ناقلاً عن الوجي."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200983

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں